پاکستان کی انتخابی تاریخ شاہد ہے کہ ضمنی انتخابات حکومت وقت جیت جاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ انتخابی روایت ٹوٹی ہے۔ تحریک انصاف کی وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں حکومتیں ہیں اور وہ حیران کن طور پر قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی تین (لاہور، بنوں، اٹک) اور صوبائی اسمبلی کی ایک(جہلم) کی نشستیں ہار گئی ہے جو اس امر کا ٹھوس ثبوت ہے کہ حکومتی جماعت نے حسب روایت انتخابات میں سرکاری وسائل استعمال نہیں کیے۔ انتخابی عمل صاف اور شفاف رہا ہے جس کا کریڈٹ الیکشن کمشن پاکستان اور حکومت کو جاتا ہے۔ پاک فوج نے امن و امان کے قیام کے لیے اپنی آئینی ذمے داری خوش اسلوبی سے پوری کی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35نشستوں پر ضمنی نہیں بلکہ منی انتخاب تھے جو پرامن انداز میں مکمل ہوا اور کوئی گہما گہمی اور ہلہ گلہ نظر نہ آیا کیوں کہ آئین کے مطابق کسی ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آئین اور قانون کا احترام کیا۔ مرد قلندر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے جو شاندار اور یادگار کردار ادا کیا ہے اسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اب پاکستان کے بااثر افراد بھی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آئین اور قانون کا ڈر اور خوف ہی کسی بھی ریاست کو کامیاب بناسکتا ہے جس کا آغاز عدلیہ نے کردیا ہے۔اعتماد اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس پاکستان کے جانشین بھی ان کی خوشگوار روایت کو جاری رکھیں گے۔اگر عمران خان اور حکومتی وزراء کو انتخابی حلقوں میں جانے کی اجازت ہوتی تو نتیجہ مختلف ہوتا۔
پاکستان میں چوں کہ شخصیت پرستی کا سیاسی کلچر رائج ہے اس لیے لیڈروں کے بغیر کارکن متحرک نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ٹرن آئوٹ کم رہا۔ تحریک انصاف کی انتخابی شکست لیڈروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر تحریک انصاف کے لیڈر پارٹی تنظیم پر توجہ دیتے تو انہیں انتخابی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا البتہ تحریک انصاف مجموعی طور پر پاکستان کی بڑی قومی جماعت کا سٹیٹس قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے مجموعی طور پر 13نشستیں جیتی ہیںجبکہ اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق نے قومی اسمبلی کی دو نشستیں جیتی ہیں۔ منی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی 155 اور مسلم لیگ (ن) کی 85 نشستیں ہوگئی ہیں۔ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 181 ہوگئی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی نشستیں 156 تک پہنچ گئی ہیں۔ البتہ پنجاب میں تحریک انصاف کو ابھی بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو اگر موقع ملا تو وہ لازمی طور پر پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
حالیہ انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا موقع ملا ہے جس کا کریڈٹ ا بھی چیف جسٹس پاکستان کو جاتا ہے۔ووٹ ڈالنے کے اہل اوورسیز پاکستانیوں کی کل تعداد 6لاکھ 31ہزار ہے جبکہ صرف 7364 پاکستانیوں نے اپنے ووٹ رجسٹرڈ کروائے جن میں سے 6233 پاکستانیوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ منی انتخابات تحریک انصاف کے لیے ویک اپ کال ہیں۔ اسے بلدیاتی انتخابات سے پہلے اپنی جماعت کی تنظیم سازی پر توجہ دینا ہوگی۔ عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف نے بلند بانگ دعوے کیے مگر ہوم ورک نہ کیا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے مشکل معاشی فیصلے کرنے پڑے جن سے عوام کے ذہنوں میں تشویش پیدا ہوئی۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالر کی غیر معمولی اونچی اُڑان، اشیائے ضروریہ کی مہنگائی اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے سے ووٹرز پر منفی اثرات مرتب کیے جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو ہوا اور میاں نواز شریف کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ عوام نے پہلے کبھی ایسا مینڈیٹ نہیں دیا اور مسلم لیگ(ن) ایک بار پھر اقتدار میں آئے گی۔
ضمنی انتخابات میں کئی عوامل نے مسلم لیگ(ن) کو فائدہ پہنچایا۔ پولیس مکمل طور پر غیر جانبدار رہی، محترمہ کلثوم نواز کی وفات نے ہمدردی کی لہر پیدا کی۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی غیر متوقع رہائی نے مسلم لیگ(ن) کے حامیوں کو مایوسی سے باہر نکالا اور ان کے دلوں میں اُمید کی نئی کرن پیدا ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی گرفتاری نے مسلم لیگ(ن) کے لیے عوامی ہمدردی میں اضافہ کیا۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر پاکستان جیسی زوال پذیر ریاست میں رہائی اور قید کا بندوبست بھی ہوسکتا ہے۔
انتخابات سے پہلے اپوزیشن کے انتخابی اتحاد سے بھی مسلم لیگ(ن) کو فائدہ پہنچا۔ مسلم لیگ(ن) کی غیر متوقع فتح میں تحریک انصاف کی سیاسی اور تنظیمی خامیوں کا بھی حصہ ہے۔ تحریک انصاف کے کپتان وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد کاروبار مملکت میں مصروف ہوگئے اور پارٹی کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ پارٹی اُمیدواروں کے فیصلے مشاورت کے بغیر جلد بازی میں کیے گئے۔ عمران خان اگر جیتے ہوئے انتخابی حلقوں میں جاکر کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے تو ان کا جوش و خروش قائم رہتا مگر وہ کارکنوں کو شکریے کے خط بھجوانے سے بھی قاصر رہے۔ بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ٹائم مینجمنٹ کے سلسلے میں بہت بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کے نائب کپتان شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ بن کر بیرونی دوروں پر چلے گئے۔ تحریک انصاف کے فعال اور تجربہ کار سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین عدالت سے نااہل ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ تحریک انصاف عملی طور پر لاوارث ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے اس خلا سے پورا فائدہ اُٹھایا۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت اگر احتسابی عمل سے سرخرو ہوکر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اپنے ووٹ بنک کی طاقت سے مڈ ٹرم انتخابات کروانے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے اور بلدیاتی انتخابات میں مقامی حکومتوں پر قبضہ بھی کرسکتی ہے۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق، تحریک انصاف کے لیے ’’لوہے کے چنے‘‘ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے انتخابی حلقے کے عوام کی خدمت کرکے پارٹی کے علاوہ ذاتی ووٹ بنک بھی بنایا ہوا ہے۔ ان کے حریف ہمایوں اختر مالی اور ذاتی اثر ورسوخ کے اعتبار سے مضبوط اُمیدوار تھے مگر تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں نے ان کو قبول نہ کیا۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت ہردل عزیز لیڈر حامد خان ایڈووکیٹ یا علامہ اقبال کے شاہین اور تحریک انصاف لاہور کے صدر ولید اقبال کو پارٹی ٹکٹ دیتی تو مقابلہ کانٹے دار ہوتا اور خواجہ سعد رفیق کے لیے زیادہ مارجن سے جیتنا ممکن نہ ہوتا۔ تحریک انصاف کے اندر شدید گروہ بندی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو پارٹی کے اندرونی ، صاف اور شفاف انتخابات سے ہی ممکن ہے۔ عمران خان کو ہر صورت پارٹی کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ اگر خدانخواستہ پارٹی ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو حکومت بھی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گی۔ وہ ہر دو ماہ بعد بڑی پبلک ریلی کریں اور ہر ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں جاکر ورکرز کنوینشن کریں تاکہ پارٹی فعال اور متحرک رہے اور حکومت کے استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور وزیر پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہیں اور ہفتے میں دو دن اپنے انتخابی حلقوں میں گزاریں۔ خصوصی نشستوں پر نامزد ہونے والی خواتین اراکین اسمبلی کو خصوصی ذمے داریاں دی جائیں تاکہ وہ حکومت اور پارٹی دونوں کے استحکام کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکیں۔ اگلے چھ ماہ تحریک انصاف کے لیے بڑے اہم ہیں اس کے لیڈروں اور کارکنوں کو پورے جنون کے ساتھ دن رات کام کرنا ہوگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024