اگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بروقت الحاق کر لیتیں تو خان کیلئے کئی مشکلات کھڑی کر سکتی تھیں۔ انکی اداروں پر تنقید نے آزاد ممبران کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ ادارے عمران کے حق میں ہیں۔ نتیجتاً جہانگیر ترین کے جہاز کیلئے اُڑان بھرنا آسان ہو گیا۔ وہ جہاں بھی گیا ’’فل لوڈ‘‘ کے ساتھ واپس آیا۔
اداروں کی کارکردگی یا کاوش اتنی آسان ہوتی تو پرویز مشرف کے دور میں ق لیگ پہلا الیکشن آسانی سے جیت جاتی۔ اس وقت ملک میں مارشل لا کا نفاذ تھا ۔ باایں ہمہ ق لیگ کو بھی وہی مشکلات پیش آئیں جن کا سامنا عمران خان کو کرنا پڑا ہے۔ بھان متی کاکنبہ جوڑنے میں چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کو ایڑی چوٹی کازور لگانا پڑا۔ دانہ دانہ اکٹھا کرنا پڑا۔ منت سماجت ا ور سنہری وعدوں کے باوصف جمالی ایک ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ لیاقت پور سے منتخب ممبر احمد عالم انور اسلام آباد کے ہالی ڈے ان میں ٹھہرا ہوا تھا۔ غالباً کمرہ نمبر 126 تھا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور چودھری شجاعت ا ور جنرل (ر) ملک مجید اندر داخل ہوئے۔ غالباً اسکی موجودگی کا پتہ ایجنسیوں نے دیا تھا۔ یہ اسے (ق) لیگ میں شامل کرنے کیلئے منت سماجت کرنے لگے۔ اس نے انکار کر دیا۔ دونوں ترغیب وتحریص پر اُتر آئے۔ چودھری شجاعت کہنے لگے شاہ صاحب! اتفاق سے آپ موجود ہیں۔ ہماری سفارش کریں۔ (وہاں کیا باتیں ہوئیں، کیا طے پایا یہ ایک دلچسپ قصہ ہے جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی زیرطبع کتاب ’’شاہ داستان‘‘ میںکر دیا ہے) قصہ مختصر احمد عالم انور نے اپنی جیب سے کاغذ نکالا اور مطالبات کی طویل فہرست چودھری شجاعت کو تھما دی۔ چودھری صاحب گھاگ سیاست دان ہیں۔ انہوں نے پڑھے بغیر ہی ’’منجور‘‘ کہہ دیا۔ وہاں سے اُٹھ کر ہم انکے ڈیرے پر آئے جہاں پہلے سے موجود پریس رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کو احمد عالم کی (ق) لیگ میں شمولیت کی خوشخبری سنائی گئی۔ ان سے ہاں، بھی کہلوائی گئی اور پہلے سے بھرے ہوئے فارم پر دستخط کروائے گئے۔ اس کامیابی کی اطلاع طارق عزیز کو دی گئی جو پل پل کی خبر جنرل مشرف کو پہنچا رہا تھا۔ وضعدار تو ہیں ہی اسکے بعد ’’روٹی شوٹی‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی دنوں کی محنت، کوشش ، کاوش کے بعد (ق) لیگ اس قابل ہوئی کہ حکومت سازی کا عمل مکمل کر سکے اور پرویز مشرف اگر چاہتا تو ایوب خان کی طرح جھرلو بھی پھروا سکتا تھا لیکن اس نے GORDIAN KNOTT نہیں کاٹی، ناخنِ تدبیر سے حالات کی گرہیں کھولیں! طارق عزیز جنرل صاحب کا پرنسپل سیکرٹری تھا اس نے کئی سال تک ان کا سیکرٹری رہ کر سول سروس کے مرغانِ کلنگ کو حیران کر دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ اس قسم کی ہرا پھیریاں اور جوڑ توڑ صرف وہ ہی کر سکتے ہیں۔ اس کا تعلق انکم ٹیکس سروس سے تھا۔
ایک دفعہ ہم اسے ملنے اسلام آباد گئے تو ضلع ناظم طارق بشیرچیمہ حال وفاقی وزیرکہنے لگا۔ خدا کی قدرت ہے۔ یہ شخص اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے کبھی تین ماہ سے زیادہ عرصے تک ایک پوسٹ پرنہیں رہا، اب کئی برسوں سے صدر مشرف کے ساتھ نتھی ہے (میں اسوقت کمشنر بہاول پور تھا) ۔اب ہو گا کیا؟ مہینوں گرما گرم بحث جاری رہے گی۔ دھاندلی ہوئی ہے۔ یکسر نہیں ہوئی! دھواں دھار تقریریں ہونگی۔ عالم غیظ میں منہ سے جھاگ نکلے گی۔ غصے میں مُٹھیاںبھنچیں گی۔ لفظی گولہ باری ہو گی۔ دشنام اتہام اور الزام کے تیر برسیں گے۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی ڈھاک ڈھاک کے تین پات، کھایا پیاکچھ نہیں۔ صرف گلاس توڑا ہے۔بارہ آنے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024