اگرچہ ضمانت پر رہائی کے بعد نوازشریف اور مریم نواز اسی طرح متحرک نہیں تھے جس طرح جیل جانے سے پہلے یا جس طرح کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ حالانکہ اس سلسلہ میں کوئی قانونی اور عدالتی پابندی ان پر عاید نہیں تھی۔ شہبازشریف کے نیب کی طرف سے حراست پر ان کا رویہ زیادہ نہ بدلا ان کامحتاط ردعمل اور مریم نواز کی معنی خیزخاموشی پران کے حامیوں اور مخالفوںمیں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ حمزہ شریف کی تایا جان سے ملاقات کے بعد ن لیگ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے اور نوازشریف کے اس کی صدارت کرنے کی خبر سے ہنگامہ خیز سیاست شروع کرانے والوں نے لنگوٹ کس لئے اور ان کی خواہشات کو خبریں بنا کر شائع اور نشر کرنے والوں نے بھی اجلاس میں ن لیگ کے حکومت کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرنے کی پیشگوئیوں کو بڑے وثوق سے چھاپا مگر ان کی خواہشوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ن لیگ نے ایسی کوئی تحریک شروع کرنے، نوازشریف کے منہ سے شعلے نکلنے اور مریم کے جارحانہ ٹویٹر کو دیکھنے میں بری طرح مایوسی ہوئی۔ باپ بیٹی نے دھیما اندازاختیار کیا اور اپوزیشن سے رابطے کر کے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کا اعلان کر کے ہنگامہ خیز سیاست کے فوراً شروع ہو جانے کے سارے امکانات ختم کر دئیے۔ اسے ان کی سیاسی بالغ نظری کہیں یا ن لیگ کی اس حد تک کمزوری کہ اب وہ اپنے صدر کی گرفتاری پر جائز ناجائز احتجاج کے لئے بھی دوسری جماعتوں کی مدد کے محتاج ہے۔ کیا نوازشریف کے پیش نظر اپنے ’’جانثاروں‘‘ کی وہ جانثاری ہے جس کا مظاہرہ ان کے لندن سے لاہور پہنچنے کے بعد ان جانثاروں نے ایرپورٹ سے میلوں دور رہ کر کیا اور اپنے لیڈر کے دل و دماغ میں جو مایوسی اور بددلی بھردی وہ اس وقت تک نہیں نکلے گی جب تک وہ جانثاروں سے تجدید سیاسی بیعت نہیں لے لیتے۔ چونکہ انہوں نے اپنے انتخابی نشان کے لئے بہت سوچ سمجھ کر شیر کا نشان منتخب کیا تھا اس حوالے سے وہ خود بھی شیر کہلوانے لگے دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کے نعروں سے ان کے کان از حد زیادہ مانوس ہو چکے تھے ۔ نوازشریف اور مریم نواز لندن واپسی پران نعروں کواپنی بلند ترین سطح پر دیکھنے کا تصور جاناں کئے ہوئے تھے۔شہبازشریف پورے پاکستان سے ن لیگ کے کارکنوں کر لاہور ایئرپورٹ پہنچ کر اپنے قائد کا استقبال کرنے کی کال دے چکے تھے۔حمزہ شہباز اور رانا ثناء اللہ مریم اورنگزیب اور وزیراعظم بن کر بھی نوازشریف کو اپنا وزیراعظم کہنے والے شاہد خاقان عباسی لاہور میں ن لیگیوں کے سمندر میں لاہور کے بند ہو جانے کی نوید سنا چکے تھے۔ اور پھر ان میں کوئی بھی جب ایئرپورٹ نہ پہنچا سمندر چھوٹی کوئی موسمی برساتی نالہ بھی ایئرپورٹ کے ارد گرد کہیں نظر نہ آیا تو بقول شخصے مریم نواز نے کہا کہ ابو چلیں راولپنڈی والے جہاز میں بیٹھیں یہاں کوئی نہیں آئیگا۔
نوازشریف کے اڈیالہ میں جانے کے بعد تو یہ جانثار غائب ہی ہو گئے کہ اب لمبے عرصہ کے بعد جیل سے باہر آنے والے کے لئے کیوں گلے پھاڑے جائیں مگر اللہ کا کرنا ہوا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کی ضمانت ہو گئی ۔ ن لیگیوں نے بالعموم اور جانثاروں نے بالخصوص ماضی قریب کے کردار یا کرتوتوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے مٹھائی کھا کر خوشی منانے بھنگڑے ڈال کر اپنی جیت کا اظہار کرنے اور روایتی انداز سے مٹھائی تقسیم کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ نواز شریف کی شریک حیات اور مریم کی والدہ کا تو ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا کلثوم نواز جیسی خاتون کے انتقال کے دو دن بعد مٹھائی تقسیم کرنے والوں کو ہرگزشرم نہ آئی۔کل مرحومہ کلثوم نواز کا چہلم ہے۔
اب نواز شریف نے اگر اپنے جانثاروں سے پوچھ لیا کہ تمہیںمیری اہلیہ کے انتقال پر صدمہ نہیں تھا تو بھی مٹھائی بانٹنا بھنگڑے ڈالنا اورڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے ایسی شرمناک حرکتیں کیوں کیں۔ ائیرپورٹ نہ پہنچنے کا کیا سبب تھا اگر تم میں دم خم نہیںتھا یہ مجھے دھوکا کیوں دیتے رہے وغیرہ وغیرہ یا اس شیر کی طرح جس پر بڑھاپے نے یکدم حملہ کردیا اور اس کی طاقت دنوں میں کمزوری میں بدل گئی۔ شیر نے اپنے بارے میں رائے لینے کیلئے جنگل کے جانوروں سے رابطے کا فیصلہ کیا سب سے پہلے اسے ہاتھی نظر آیا اس نے پاس جا کر کہا ہاتھی آجکل جنگل کا بادشاہ کون ہے ہاتھی نے شیر کو اپنی سونڈ پر اٹھایا اور گھما کر دور پھینک دیا ۔ بوڑھا شیر اٹھا جسم کو جھاڑ کر اردگرد دیکھا کہ کسی نے یہ بے عزتی تو نہیں دیکھی ا ور ہاتھی سے تھوڑا دورکھڑے ہو کر کہنے لگا سوال کا جواب نہیں آتا تھا تو اس میں غصہ کرنے والی کونسی بات تھی۔
شیر نے سوچا کہ اب یہ سوال نہیں پوچھا جائیگا بلکہ شیرنی کہتی تھی تمہارے تو منہ سے بھی بدبو آنے لگی ہے اس کے بارے میں رائے لیتے ہیں۔ سامنے سے بھیڑیا آ رہا تھا شیر نے کہا ادھر آئو قریب آ کر بتائو کہ کیا میرے منہ سے بدبوآ رہی ہے بھیڑیے نے کہا بادشاہ سلامت سچ بتائوں قریب آنے کی ضرورت نہیں آپ کے منہ کی بدبو تو مجھے دور کھڑے ہی تنگ کر رہی ہے۔ قریب آیا تو میرا دماغ پھٹ جائے گا شیر غصے سے بھیڑیے پر جھپٹا اور اس کا تیا پانچہ کر دیا ایک بھیڑ یہ تماشا دیکھ رہی تھی شیر نے اسے آوازدی وہ بھاگتی اور کانپتی آئی شیر نے سوال دہرایا بھیڑ سچ بولنے پر بھیڑیے کا انجام دیکھ چکی تھی۔ دل و دماغ پر جبر کر کے سانس روک کر کہنے لگی بالکل جھوٹ آپ کے منہ سے تو بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے۔ شیر غصے میں دھاڑا خوشامد کر رہی ہے اور ساتھ ہی اسے بھی دبوچ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ اب اردگرد کوئی جانور نظر نہ آیا البتہ ایک لومڑی قریب کے درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچانے کی تدبیر کرتی نظر آگئی۔ شیر نے لومڑی کوآواز دی۔ وہ قدرے اعتماد سے شیر کی طرف آئی۔ اگرچہ وہ بھیڑیے کے سچ بولنے سے ملنے والی سزا اور بھیڑ کے جھوٹ بولنے سے ملنے والی وہی سزا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی اور اب اس کے پاس سچ بولنے یا جھوٹ بولنے کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں تھی مگر اس کے باوجود وہ یہ سوچتی آگے بڑھ رہی تھی کہ اپنی مکاری سے کام لینے کا اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا۔ گویا آج میری مکاری کے امتحان کا فائنل ہے۔ پر اعتماد لہجے میں آگے بڑھی۔ شیر نے کہا میرا منہ سونگھ کر بتائو کہ میرے منہ سے بدبو آرہی ہے کہ نہیں۔ لومڑی بولی بادشاہ سلامت میں سو دفعہ آپ کے حکم کی تعمیل کرتی مگر پرسوںسے نزلے زکام اور بخار میں مبتلا ہوں۔ ناک ہر وقت بہتی رہتی ہے۔ آپ کے قریب آئی تو یہ چھوت چھات کی بیماری میرے بادشاہ سلامت کو بھی لگ جائے گی۔ چونکہ میری سونگھنے کی حس ختم ہو چکی ہے خوشبو کا پتہ چلتا ہے نہ بدبو کا اس لئے سوائے معذرت کرنے کے میرے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں۔ شیر نے کہا دور بھاگ جائو کہیں مجھے بھی زکام نہ لگا دینا۔
نوازشریف نے بھی اگر اسی طرح پوچھ لیا تو جانثاروں کی طرف سے تینوں قسم کے جواب آئیں گے۔ سچ سننے کا ان میں حوصلہ نہیں رہا۔ جھوٹ سے وہ تنگ آچکے ہیں۔ اس لئے لومڑی والی چال سے وہ پھر بہکاوے میں آسکتے ہیں۔ ان کی رہائی پر کلثوم نواز کے تازہ ترین صدمہ کا نظر انداز کرکے مٹھائیاں بانٹنے بلکہ جیل میں کیک لیکر پہنچنے والے اس لومڑی کی کارگزاری کو بہتر آزما چکے ہیں۔ وہ پرویکٹو ہونے یا کوئی بھی لائحہ عمل مرتب کرنے سے پہلے بھٹو کے جیالوں‘ افتخار چودھری کے متوالوں کے ان کے عروج سے زوال کے سفر کے مثالی کردار کو ضرور پیش نظر رکھیں۔ جو بھٹو کیلئے خون دینے سے نیچے بات نہیں کرتے تھے۔ بھٹو کی پھانسی پر اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے اور افتخار چودھری کو عدلیہ کی شان‘ آن‘ بان کہنے اور بحالی عدلیہ کی تحریک کے سرکردہ وکیل رہنما ان کی بحالی کے بعد اسی طرح غائب ہوئے جیسے اس ڈرامے میں ان کا اتنا ہی کردار تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024