اس سارے معاملے میں ہمیں جو عوامل نظر آرہے ہیں وہ خاصے گہرے ہیں۔ جن پر گہری سوچ وبچار اور سنجیدہ طرز عمل درکار ہے۔ ہمیں نظرآرہا ہے کہ داخلی سطح پر اپوزیشن کوئی موقع، لمحہ اور امکان ضائع نہیں کررہی جس سے وہ پی ٹی آئی کی ناتجربہ کاری اور ہوم ورک کی عدم تیاری پر اس کی سبکی یقینی بنانے میں کردار ادا نہ کررہی ہو۔ضد، انتقام اور سیاسی مفادات کے اس بے رحم کھیل میں کوئی کیا جانے کہ وزیراعظم عمران خان وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے ضمنی انتخاب میں بذات خود کوئی جلسہ کیا، کسی بہانے سے کوئی ترقیاتی سکیم دی ہو، ووٹروں کو اکسانے کے لئے کوئی لچھے دار تقریر کی ہو، کہیں کوئی سرکاری مشینری، کوئی اہلکار روایتی چمچہ گیری کرتے نظرآئے ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار یہ روایت قائم کی کہ انہوں نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ضمنی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومتیں ہونے کے باوجود کہیں کوئی مداخلت کا شائبہ بھی نظرنہیں آیا جو تبدیلی کی ایک واضح علامت ہے۔ ورنہ عوامی نیشنل پارٹی نہ جیت پاتی، بنوں میں اکرم درانی صاحب کے فرزند ارجمند رکن قومی اسمبلی نہ بن پاتے۔ یہ پاکستان کے سیاسی اور حکومتی مزاج میں تبدیلی کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے۔ اس امر کی تحسین نہ ہونا زیادتی ہوگا۔
اسدعمر کی گفتگو سے یہ عقدہ بھی حل ہوا کہ امریکہ سمیت دیگر دشمنان سی پیک ابلاغی محاذ پر کیا کیا لغو پراپگنڈے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ہی ایک یہ تھا کہ ’سی پیک قرضوں کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں۔‘ وزیرخزانہ نے واضح کردیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس سارے کھیل کا مقصد بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہے؟یہ ساری پرکاری کسے زیربار لانے کے لئے ہورہی ہے۔
اسد عمر نے یہ صفائی بھی دی کہ ’عمران خان نے کسی وقت کہا ضرور ہوگا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر الیکشن کے تناظر میں انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا۔ مشاورت کے بعد اس کے پاس گئے۔‘ انہوں نے دلیل پیش کی کہ ’غیرملکی معاشی دبائو کی وجہ سے خطہ کے دیگر ممالک کے پیسے کی قدر میں بھی کمی ہوئی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مجوزہ پروگرام تین سال کا ہو گا اور اس کے لئے باضابطہ درخواست بھی کردی گئی ہے۔وہ اب بھی بضد ہیں کہ آئی ایم ایف سے غریبوں کو ’سبسڈی‘ جاری رکھنے پر بات کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ’ آئی ایم ایف کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے تاہم اس میں تکلیف بہت برداشت کرنا پڑے گی۔
یہ بات بھی ہمارے سوچنے کی ہے کہ ایک طرف ہم اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کسی سے قرض نہ لینا پڑے لیکن پھر جب بات کمر کسنے کی آتی ہے۔ قربانی دینے کی آتی ہے اور جیب سے دمڑی دھیلہ نکالنے کی آتی ہے تو ہمارے ماتھے شکن آلود ہوہوجاتے ہیں۔ قوم کی سطح پر بھی تو کچھ تبدیلی آنی ہے کہ نہیں؟۔حزب اختلاف سے بھی یہ سوال بنتا ہے کہ اپنے دور میں بے رحمی سے غریبوں کا گلا کاٹنے والے آج کس منہ سے ان کے ترجمان بن بیٹھے ہیں۔ کیا یہ خود ان ہی کے ہاتھوں کی بوئی ہوئی فصل نہیں جس نے قوم کو کانٹوں کی روٹی اور دکھوں کا سالن دیا۔ آج کس منہ سے وہ پی ٹی آئی پر تنقید کررہے ہیں۔ اسدعمر پر طعن وتشنیع کرکے سینے پھلا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بغض میں کف اڑاتے اپوزیشن رہنمائوں کو اصل تکلیف تو سیاسی ہے۔ عہدے اور مناصب چھننے کی ہے۔ احتساب کی ہے۔ وہ جو لوٹ مار کو قومی پالیسی کے طورپر اختیار کئے ہوئے تھے۔ آج قوم کو بھاشن دے رہے ہیں۔ حکومت ٹھیک کرنے کی باتیں کرکے انصاف، جمہوریت اور اخلاق کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ کم بخت بھی تیرا چاہنے والا نکلا
تحریک انصاف پہلی حکومت نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس گئی۔ اب تک 18 آئی ایم ایف پروگرام لئے جا چکے۔ 22 سمجھوتے ہوئے۔ پی پی پی ادوار میں 2 معاہدے ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) نے پروگرام لئے۔ فوجی حکومتیں سات بار آئی ایم ایف پروگرام لینے پر مجبور ہوئیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا یہ جرم بنا کر پیش کیاجارہا ہے۔
یہ سارا سیاسی کھیل ہے اور مفادات میں جکڑے لوگ پی ٹی آئی کو دبانے اور اس آڑ میں اپنی جان چھڑانے کے بہانے تراش رہے ہیں۔پاکستان کی صورت احوال کچھ ایسی ہے کہ:
وقت پڑے تو یار سلیمی کون کسی کا ہوتا ہے
ہم سے عبرت حاصل کرلو ہم یاروں کے مارے ہیں
(ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024