تھرمیں غربت ..خشک سالی… قحط… آخرکب تک؟
سندھ کے ضلع تھر پار کر ‘ میر پور خاص‘ عمر کوٹ‘ انتہائی پسماندہ علاقے شمار کئے جاتے ہیں بالخصوص تھر خشک سالی‘ قحط ‘ غذائی قلت کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا رہتا ہے اور مٹھی‘ اسلام کوٹ‘ چھاچھرو‘ لاری کھیت و دیگرعلاقوں کے کمزور بچوں‘ اسپتالوں میں اور صحرا میں مردہ جانوروں کی شائع تصاویر ایک جانب حکومتی اداروں کی ناا ہلی و غفلت کی نشاندہی کرتی ہیں تو دوسری جانب منتخب نمائندوں‘ سیاستدانوں کوکالا باغ ڈیم کے ایشو کی طرح تھر کے حالات پر سیاست کرنے اور بیان بازی کا موقع مل جاتا ہے۔ تھرمیں غربت‘ خشک سالی‘ قحط اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی میڈیا پر آنے والی خبروں کے پیش نظر ہر ذی شعور یہ سوچتا ہے کہ ان حکمرانوں‘ وڈیروں‘ سیاستدانوں کو کب خیال آئے گا‘ غربت و افلاس آخر کب تک؟ ماہ ستمبر‘ اکتوبر 2018ء میں تھرمیں بچوں کی اموات کے حوالے سے مسلسل میڈیا پر آنے والی خبروں کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ عوام کی زندگیوں کا معاملہ ہے‘ اپنے لوگوں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ عدالت عظمیٰ میں تھر پر جمع کرائی گئی رپورٹ میں سیکرٹری ہیلتھ سندھ نے بتایا کہ تھرمیں زچہ وبچہ کی صحت ٹھیک نہیں‘ بچوں کی پیدائش میں وقفہ کم ہے‘ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز صرف 40 فیصد علاقے پرکام کرتے ہیں‘ غذائی قلت کا ایشو ہے۔ رپورٹ پر عدم اطمینان کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے خود تھرکے دورے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں پرپیپلزپارٹی کی دس سالہ دورحکومت میں کئے گئے اقدامات کا خود جائزہ لے سکیں اور وہاں کے حالات اورمیڈیا پر آنے والی خبروں کا بخوبی فرق محسوس کریں۔ گزشتہ دنوں ممبرقومی اسمبلی نصرت واحد کا کہنا تھا کہ تھرپارکرمیں حکومت سندھ کی مسلسل ناکامی اورناا ہلی بچوں کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔ تھرکے دور درازعلاقوںمیں قلت آب‘ غذائی و صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ وزیراعظم عمران خان تھرپار کرکے متاثرین کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان کریں گے۔ حکومت سندھ ہر سال تھرپر بجٹ میں اضافہ کرتی آرہی ہے لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ بجٹ کہاں پر استعمال ہورہا ہے۔ بچوں کی اموات پر حکومت کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔
میڈیاپر آنے والی خبریں بجااس موضوع سے برآں سندھ میں قلت آب کی خبریں اورسندھ بالخصوص ان مذکورہ اضلاع میں پانی کی قلت کے خلاف کسانوں‘ آبادگاروں کے علاوہ دیہاتیوں کے مظاہرے‘ احتجاجی دھرنے اور پانی کے بحران پر سیاستدانوں کے تشویشناک بیانات آتے رہتے ہیں۔ راقم کا 5 سال قبل چوہڑ جمالی‘ شاہ عقیق جانے کا اتفاق ہوا اور گزشتہ ماہ مٹھی کے تعلقہ اسلام کوٹ جانے کا موقع ملا دوران سفر ٹھٹھہ‘ سجاول‘ بدین کے وسیع و عریض علاقوں میںدھان اور کماد کی فصلیں نظر آئیں جو کہ خبروں‘ بیانات اور مظاہروں کے برعکس فراوانی آب کی عکاسی تھیں۔ یہاں پر خصوصی کمیٹی تشکیل دے کر اصل حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم کیونکر ہے‘ سندھ میں پانی ہے اس پر علاقے کے بااثر وڈیرے اور حکمران طبقہ قابض ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دنوں اسلام کوٹ جانے پر معلوم ہوا کہ اب تھر پار کر میں وہ صورتحال نہیں جو آج سے ایک دہائی قبل تھی‘ اب علاقے میں کوئلہ کی کانکنی اور توانائی پر ملک کا سب سے بڑا اور میگا منصوبہ 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے‘ سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ اسلام کوٹ میں ائیر پورٹ کی تعمیر جاری ہے‘ سماجی تنظیمیں اورفلاحی ادارے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے زیر اہتمام اور سی پیک (پاکستان چائنا اقتصادی راہداری) کے تحت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے بعد تھرکے مقامی افراد کو باختیار اور ان کے حالات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان فریم ورک کے تحت سیکشن 42 کمپنی کے تحت تھرفائونڈیشن قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد تھری لوگوں کے معیارزندگی کو بہتر بنانا ہے تاکہ یہاں کے لوگ امن و خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے دورمیں شامل ہوسکیں۔ تھر فائونڈیشن وہاں تعلیم‘ صحت‘ ذریعہ معاش‘ صنفی مساوات‘ پانی اور خواتین کوبااختیار بنانے جیسے اہم شعبوں پرمشتمل کام کا کررہاہے۔ اسلام کوٹ میں 250 بستروں پرمشتمل اسپتال تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس کا انتظام انڈس اسپتال کے سپرد کیا گیا ہے۔ اسی طرح مٹھی میں جماعت اسلامی کے تحت نو تعمیر اسپتال علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کررہاہے علاوہ ازیں پاک فوج و دیگر فلاحی تنظیمیںتھرکے وسیع عریض علاقوں میں فلاحی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ اسلام کوٹ کول مائننگ بلاک II میں کلینک پر موجود ہیلتھ افسرنے استفسار پر بتایاکہ یہاں پرمریضوں سے کسی قسم کی فیس وصول نہیں کی جاتی اور مفت دوا بھی دی جاتی ہے جبکہ جن مریضوں کا علاج ممکن نہ ہو انہیں مٹھی‘اسلام کوٹ ریفرکیا جاتا ہے جبکہ اخبارات اورمیڈیا پر آنے والی خبروں اوریہاں کے موجودہ حالات میں کافی فرق ہے چونکہ بعض سیاستدانوں کاتھرکا ایشو ہو یا سندھ میں قلت آب ان کا مقصد اپنی سیاست چمکانے اور ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے تھر پر پیش کردہ رپورٹ پر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے اظہار عدم اطمینان کے بعد چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے تھرمیں ترقیاتی کاموں کے جائزہ لینے کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس ثاقب نثار از خود تھر کا دورہ کرکے‘ صورتحال معلوم کریں گے جو کہ تھری عوام کی کسمپرسی پر قابو پانے‘ غذائی و آبی قلت ا ور صحت کی سہولتوں پرقابو پانے پر ا ہم سنگ میل ہوگا اور حکومت سندھ کی جانب سے تھر میں کئے گئے ترقیاتی کاموںمیں مزیدوسعت کی امید ہے اگر تندہی اور میرٹ پر فنڈز استعمال کئے جائیں تو اس میں کوئی بعید نہیں کہ تھرمیں ترقی ہو۔