انیسویں صدی کے وسط میں ہماری قومی زندگی فشار اور بحران کے سنگم پر کھڑی تھی۔ راستے گم تھے اورر اہ نما مفقود! ان نازک حالات میں جس شخص نے اعتماد اور حوصلے کے چراغ جلائے، علی گڑھ جیسی اہم تحریک کی داغ بیل ڈالی اور پھر اسکی قیادت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اسے ہم سر سید احمد خاں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ سر سید نے قومی زوال سے متاثر ہو کر قومی تعمیر کیلئے کمر باندھی تو زندگی کے بے شمار پہلو انہیں داغ داغ نظر آئے ۔ تہذیب و تمدن ، مذہب و معاشرت، سیاست و معیشت ، علم و ادب ، زبان اور تعلیم غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو اصلاح طلب نہ ہو ۔ ان میں سے ہر پہلو سر سید کی توجہ کا مرکز بنا اور انہوں نے ہر ایک پہلو میں زندگی کی نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ۔ مولانا حالی اور سر سیدکے دوسرے معاصرین نے انکے کام کو1857ء کے ہنگامہ رستا خیز اور برطانوی اقتدار کے قیام اور اس سے پیدا شدہ حالات کی روشنی میں ہی دیکھا ہے مگر آج انکی وفات کے ایک سو تیرہ سال بعد بھی انکے کام کو 1857ء کے پس منظر میں دیکھنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے حالانکہ سرسید دور جدید کے پہلے مسلمان تھے جس نے آنیوالے زمانے کے ایجابی مزاج کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ لیا تھا اور اپنی ساری جدو جہد کا رُخ ہندوستان کی فلاح و بہبود، اسلام کی نئی تفسیر و تعبیر اور ایشیاء کے نفس ہائے رمیدہ کی باز یافت کی طرف موڑ دیا تھا۔ سر ہملٹن گب نے سر سید کی قائم کردہ درسگاہ کوFirst modernist organization of India قرار دیا تھا۔ سر سید نے اپنی تحریک کے ذریعے بے زاری، مایوسی ، غلامی اور تقلید کی ز نجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو ایک نئی زندگی کی بشارت دی۔ انکی آنکھوںمیں اعتماد اور حوصلے کی چمک پیدا کی ۔ سر سید کا خیال تھا کہ جب تک ہم اندھی تقلید کی زنجیروں کو نہ توڑیں گے اصلاح کا کوئی کام نتیجہ خیز ثابت نہ ہو گا ۔ اسی خیال کے پیش نظر زندگی اورادب میں عقلیت اور افادیت کا تصور پروان چڑھا۔ زندگی سے متعلق مسائل کو عقل کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش شروع ہوئی ۔ اسی طرز فکر کے باعث ان پر کفر کے فتوے لگے لیکن انکے کفر نے ایمان کیلئے نئے راستے کھول دیئے ۔ ہمارے معاشرے میں میں عمل اور حرکت کی ایک موج پیدا ہوئی۔
علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’مسلمانان ایشیا اب تک سرسید احمد خاں کی ذہنی کاوش کو سمجھنے کے قابل نہ ہو سکے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس حقیقت کا انکشاف مجھ پر ہوا کہ سرسید کی نگاہ ایسے وسیع و عریض اُمور پر جمی ہوئی تھی جن کا تعلق مسلمانان ایشیاء کے مذہب اور سیاست سے تھا۔ پس مسلم ایشیاء نے اب تک انکی شخصیت کی حقیقی عظمت کا اندازہ نہیں کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی سرسید احمد خاں کی شخصیت کو عالم اسلام کے وسیع فکری پس منظر میں دیکھا اور ’’وکیل ‘‘ کے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ ’’جو آواز آج سے تیس چالیس برس پیشتر اس اسلامی دور کے آخری مجدد کی زبانی سرزمین ہند سے بلند ہوئی تھی آج مصر، استنبول اور خود ہندوستان کے ہر روشن خیال اور تعلیمافتہ شخص کی زبان پر ہے ۔ مولانا ابوالکلام نے علی گڑھ کے ایک کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہندو اور مسلمانوں نے سر سید کی رائے کی روح کو سمجھا ہوتا اور اس کی پیروی کی ہوتی تو آج ملک کی تاریخ کا دوسرا رُخ ہوتا۔ بلاشبہ سرسید کے کارنامے ترکی کے مدحت پاشااور فواد پاشا، ایران کے حجۃالاسلام شیخ ہادی نجم آبادی، مصر کے مصطفیٰ کامل، تیونس کے خیر الدین پاشا، الجیریا کے امیر عبدالقادر، طرابلس کے امام محمد سنوسی، افغانستان کے سید جمال الدین افغانی اور روس کے مفتی عالم جان کے کارناموں کے ساتھ مطالعہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اگر اقبالؔ، گبؔ اور آزادؔ کے دئیے ہوئے معیار اور سرسید کی جدوجہد و مساعی کے جملہ پہلو ہمارے پیش نظر رہتے تو سرسید کی حیرت انگیز ہمہ گیری اور اسکے دوررس اثرات کا عظیم الشان میدان نظروں کے سامنے آجاتا لیکن ہم نے ہمیشہ محدود دائروں میں سرسید کی عظمت کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور بقول اقبال : ؎
اس مردخدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندہ آفاق ہے، وہ صاحب آفاق
حقیقت یہ ہے کہ سر سید کی فکر اور انکی جدو جہد وسعی کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے پاک و ہند، عالم اسلام اور ایشیا تینوں کے پس منظر سامنے ہونے چاہئیں۔ آج پاکستانی معاشرہ جس عدم برداشت، قنوطیت، فتویٰ بازی اور تاریخی نرگیست کا شکارہے اس کا ایک علاج سر سید احمد خاں جیسے مصلح و مدبرراہنما کی حقیقت پسندانہ روشن خیالی کا فروغ بھی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سرسید کے افکار و خدمات کی فہم نو حاصل کرکے آنیوالے دنوں کو انکی لو سے منور کریں تاکہ معاشرے سے جہالت، مایوسی اور فکری پسماندگی کا خاتمہ ہو، ہمیں ایک اور سر سید کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38