جمعة المبارک‘ 2 جمادی الاول 1445ھ ‘ 17 نومبر 2023ئ

بابراعظم مستعفی۔ پی سی بی کوچنگ سٹاف بھی فارغ۔
ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم کی ہر لحاظ سے ناقص کارکردگی کے بعد یہ نزلہ تو کسی پر گرنا ہی تھا۔ زیادہ زور البتہ بابر اعظم پر لگا کیونکہ وہ ٹیم کے کپتان تھے۔ اب انہوں نے خود استعفیٰ دیا یا ان سے لیا گیا اس بارے میں کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ مگر باقی جو کھلاڑی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے ان کی بھی گرفت ہونی چاہیے۔ جب تک سفارش یا تعلقات پر ٹیم بنے گی ہماری ٹیم کی حالت نہیں سدھرے گی۔ ہم لوگ ویسے ہی ”میٹھا میٹھا ھپ ھپ اور کڑوا کڑا تھو تھو“ والی پالیسی پر چلتے ہیں۔ اب بابر اعظم تینوں فارمیٹ کے کپتان نہیں رہے۔ ان کی جگہ شان مسعود ٹیسٹ کے اور شاہین آفریدی ٹی 20 کے کپتان مقرر ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں مکی آرتھر سمیت قومی ٹیم کے کوچنگ سٹاف کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ بابر کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی پیش کی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا شاید وہ ناراض ہیں۔ اب شان مسعود اور شاہین آفریدی جیسے نوجوان کھلاڑیوں سے کیا امید ہے کہ وہ بہترین کارکردگی دکھائیں گے۔ اب وقت ہے کہ اچھے کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے۔ بابر اعظم ایک بہترین بلے باز ہیں امید ہے وہ اس میدان میں بہت آگے جائیں گے اس لیے دل چھوٹا نہ کریں ملک کے لیے کھیلیں۔ یہ اتار چڑھاﺅ آتے رہتے ہیں۔ کوہلی بھی کپتانی چھوڑ کر عام کھلاڑی کے طور پر کھیل رہے ہیں اور گزشتہ روز سیمی فائنل میں اس کی کارکردگی اس کے بہترین ریکارڈ ساز بلے باز ہونے کی گواہ ہے۔
ضروری نہیں بطور کپتان ناکام کھلاڑی اچھا پلیئر نہ ہو۔ بس ایک بات یاد رہے۔ جب کھلاڑیوں کی گردن میں سریا آ جاتا ہے۔ سفارشی کھلاڑی بھی خود کو بریڈ مین یا ٹنڈولکر سمجھنے لگتے ہیں تو کھیل میں زوال آ ہی جاتا ہے۔ باہمی چپقلش گروپ بندی بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ویسے بھی ایک پرعزم پرجوش کھلاڑی ہی ساتھیوں میں بجلی بھر دیتا ہے انہیں جان توڑ مقابلے پر اکساتا ہے۔ نرم خو یا حد سے زیادہ محتاط انسان ہو یا کھلاڑی بزدل ہی کہلاتا ہے وہ بڑے نڈر فیصلے نہیں کر پاتا۔ اب تو ویسے ہی ون ڈے اور ٹی 20 کا دور ہے ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ والا فلسفہ زیادہ ضروری نہیں رہا۔ چوکے چھکوں والا دور چل رہا ہے۔ عوام بھی یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭
سپریم کورٹ نے سرکاری افسر کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔
پہلے بھی کئی بار ایسے احکامات جاری ہوئے مگر عمل نہ ہو سکا۔ شاید ہم خود دور غلامی کی اس یادگار سے محبت کرتے ہیں اسے گلے سے لگائے رکھتے ہیں۔ حکم تو بڑا اچھا ہے مگر کیا یہ صاحب کہلانے والے جن میں سے اکثر اس احترام کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ آسانی سے یہ ہونے دیں گے؟۔ ان کی تو ساری اکڑفوں ہی اس لفظ سے وابستہ ہے۔ جیسے مچھلی پانی کے بنا نہیں رہ سکتی اسی طرح یہ صاحبان بھی اس لفظ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بلکہ جیسے ہی کوئی بندہ کم ترین اس درجہ پر پہنچتا ہے اعلی مقام پر فروکش ہوتا ہے تو وہ ایک پرانے فلمی گانے ”سالا میں تو صاحب بن گیا“ کے مصداق اچھل اچھل کر اپنے صاحب ہونے کا اعلان کرتا پھرتا ہے۔ ایک سرکاری افسر کو جو اچھی خاصی پوسٹ پر ہو صاحب نہ کہا جائے تو وہ اسی غم میں گھلنے لگتا ہے۔ اس کی تسلی جناب کہنے سے نہیں ہوتی کیوں کہ آپ یا جناب تو ہم سب کو کہتے ہیں۔ لاہور میں تو نواب عنبر شہزادہ نے آپ جناب پارٹی بھی قائم کر لی تھی۔ جس کے پلیٹ فارم سے وہ اکثر صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے رہتے تھے تاکہ پورے ملک کو آپ جناب بنا دیں۔ ان کے انتقال کے ساتھ ان کی "ٹَوہر" بھی رخصت ہو گئی۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد متاثرین ”جناب“ کو صبر کی عادت ڈالنا ہو گی اور صرف جناب پر ہی اکتفا کرنا ہو گا۔ یہ انگریزی دور کی نشانی ہے کہ اب تک ہم بڑے صاحب یا لاٹ صاحب کا لفظ بولتے ہی ازراہ عقیدت ہم بندہ نیاز بن جاتے ہیں۔ انسان تو انسان ہم ان کے گھر اور جانوروں کو بھی احترام سے بڑے لاٹ صاحب کا بنگلہ بڑے لاٹ صاحب کی گاڑی اسی طرح لاٹ صاحب کا گھوڑا یا لاٹ صاحب کا کتا کہہ کر پکارتے ہیں۔ حد ہوتی ہے ذہنی غلامی کی۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونے سے کم از کم ہمیں قدرے آزادی کا حساس تو ہو گا۔ بڑا صاحب بھی ہمیں اپنی طرح کا ایک انسان محسوس ہو گا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر عملدر آمد کرانا بھی ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭
گوجرانوالہ کی سسٹر زیف نے یونیسکو کا سالانہ عالمی ٹیچر ایوارڈ جیت لیا
پاکستان کے لیے ایک اعلیٰ اعزاز حاصل کرنے والی اس ٹیچر کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک پسماندہ علاقے سے ہے جہاں سے اس نے روشنی کے اس سفر کا آغاز کیا وہ بھی اس طرح کے غریبوں کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کے لیے خود محنت کی سلائی کڑھائی کر کے ان کے اخراجات اٹھائے۔ قدرت ایسے لوگوں کو ہی نوازتی ہے جو بے لوث ہوں سو یہی کچھ رفعت عارف جو سسٹر زیف کے نام سے مشہور ہیں کے ساتھ بھی ہوا۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں جو خدمات انجام دیں۔ طلبہ و طالبات میں جس طرح علم کا نور پھیلایا۔ اس کا اعتراف پہلےصرف ملکی سطح پر علاقائی سطح پر کیا گیا۔ انہیں کئی ایوارڈ ملے مگر اب ان کو جو اعزاز ملا ہے اس سے پاکستان یعنی ان کے ملک کا نام بھی عالمی سطح پر روشن ہوا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انعام و اکرام ہے۔ عالم ادارے یونیسکو نے انہیں نمبر ون گلوبل ٹیچر کے ایوارڈ سے نواز۔ یعنی وہ دنیا کی بہترین ٹیچر قرار پائیں اور انہیں 10 لاکھ ڈالر کا انعام دیا گیا۔ وہ دنیا کی آٹھویں ٹیچر ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ اب یہ ہمارے تمام ٹیچرز کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے محبت و خلوص سے ادا کر کے خود بھی ایک مثال بن سکتی ہیں۔ علم ایک نور ہے جو پیار محبت سے پھیلایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح اساتذہ کرام ڈنڈے کے زور سے یا بھاری ٹیوشن فیسیں لے کر پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اس سے نہیں پھیل سکتا۔
یہی بات نجی تعلیمی اداروں کے بے حس مالکان پر بھی صادق آتی ہے جو بھاری بھرکم فیسیں لے کر بھی اعلیٰ تعلیم دینے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ صرف رٹے رٹائے طوطے پیدا کرنا ہی تعلیم نہیں۔ اب تعلیم کے میدان میں سسٹر زیف ہمارے ہیروز کے صف میں شامل ہو گئی ہیں جہاں ایدھی صاحب اور ڈاکٹر روتھ پہلے سے موجود ہیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ خدا کرے اس صفت میں مزید پاکستانی بھی شامل ہو کر اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرتے رہیں۔
٭٭٭٭٭