جسٹس رانا شمیم کا بیان ِحلفی : معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں
پاکستان میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ’سچ‘ بولنے کی روایت بہت پرانی اور مستحکم ہے۔ اہم عہدوں پر رہنے والے اکثر لوگ ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی کے بعد اپنے تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں سامنے لاتے ہیں یا ایسے انٹرویوز دیتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی اہم عہدے پر جو وقت گزارا اس دوران جو کچھ بھی غلط ہوا اس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، البتہ کچھ اور لوگوں نے بہت سی خرابیاں کیں۔ ایسے انکشافات ریٹائر ہونے والے سول اور فوجی افسران اور سیاستدانوں سمیت سبھی کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں بھی ایک ایسا ہی انکشاف ہوا ہے جس نے قومی منظرنامے پر ہلچل سی پیدا کردی ہے۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا محمد شمیم نے ایک بیان حلفی کے ذریعے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنی نہیں، اس کا فیصلہ تو شاید کبھی بھی نہیں ہوسکے گا کیونکہ ماضی میں ہونے والے بہت سے اہم انکشافات بھی چند روز قومی سطح پر ہلچل مچانے کے بعد منظرنامے سے غائب ہوگئے، لہٰذا اس انکشاف کے حوالے سے بھی یہی توقع کی جاسکتی ہے لیکن یہ ان دنوں اہم موضوعات میں سے ایک ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے زیر سماعت کیسوں سے متعلق جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کے بارے میں شائع ہونے والی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن، ایڈیٹر عامر غوری، صحافی انصار عباسی اور جسٹس رانا شمیم کے علاوہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو گزشتہ روز ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔ عدالت نے نواز شریف، مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق سابق جج کے بیان حلفی کے معاملے پر تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ رجسٹرار آفس نے انگریزی اخبار میں چھپنے والی خبر کی طرف توجہ دلائی۔مذکورہ خبر زیر التواء کیس سے متعلق ہے۔ عدالت سے باہر کسی قسم کا ٹرائل عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے۔ مذکورہ خبر بادی النظر میں زیر سماعت مقدمے کی عدالتی کارروائی پر اثر ہونے کی کوشش ہے۔
ادھر، وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت حکومتی رہنمائوں کا اہم اجلاس ہوا جس میں جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کے معاملے پر غور کیا گیا۔ مشیر داخلہ شہزاد اکبر اور بیرسٹر علی ظفر نے اس معاملے کے قانونی پہلوئوں پر بریفنگ دی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ بیان حلفی کا مقصد مسلم لیگ (نواز) کے قائدین کے خلاف کیسوں کو متنازع بنانا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے پر توہین عدالت بنتی ہے۔ علاوہ ازیں، اپوزیشن نے اس معاملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں احتجاج کیا۔ دریں اثنا، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں بھی ن لیگ نے یہ معاملہ اٹھایا۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمشن بنایا جائے۔ دوسری طرف، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی جاوید لطیف نے جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔ اس سلسلے میں کمیٹی کے 22 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس رانا شمیم سمیت تمام متعلقہ افراد کو طلب کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کوئی بڑا واقعہ ہونے جارہا ہے جس کے لیے گراؤنڈ بنایا جارہا ہے۔ اس خبر کا اصل ٹارگٹ میں نہیں، کوئی اور ہے۔ جسٹس رانا شمیم اپنی مرضی کے فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے ذاتی رنجش ضرور رکھتے تھے۔ مجھے کہتے تھے میرے عہدے کی توسیع کریں۔ میں نے کہا تھا کہ یہ میرا کام نہیں یہ حکومت کا کام ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے ناراضی کا اظہار کیا ۔ میں نے انہیں کہا کہ حکومت عام طور پر پوچھ لیتی ہے لیکن مجھے آپ کو توسیع دینے سے متعلق نہیں پوچھا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار سے استفسار کیا گیا کہ عام انتخابات 2018ء میں آپ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کو فون کیوں کرتے رہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایک صحافی کی کال آئی تھی کہ لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے نہیں دیا جارہا جس پر میں نے چیف الیکشن کمشنر کو فون کیا لیکن انہوں نے اٹینڈ نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جسٹس راناشمیم کے خلاف عدالت جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ وہ عدالت جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دوسری جانب، جسٹس رانا شمیم نے کہا ہے ثاقب نثار کو میری مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی سپریم کورٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت نہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو ایکسٹینشن دینا وزیراعظم کا اختیار ہے۔
اس معاملے میں فریقین کی طرف سے اب تک جو کچھ کہا جاچکا ہے اس سے صرف افراد کی ہی عزت خراب نہیں ہورہی بلکہ عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہورہا ہے۔ گو کہ ماضی میں بھی بہت سے انکشافات ہوتے رہے ہیں لیکن کسی ایک بھی معاملے کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔ حکومت اور عدلیہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں اور سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ چھان بین کرا کر تمام حقائق کو سامنے لائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ علاوہ ازیں، اسے کسی ایک سیاسی شخصیت یا جماعت کا مسئلہ نہ سمجھا جائے، ایسے معاملات کی وجہ سے پورا ملک بدنام ہوتا ہے، لہٰذا اس معاملے کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔