اقلیتوںکیلئے قانون سازی ناگزیر،چائلڈ میرج لاء کا تحفظ ملنا چاہیے:نیشنل مینارٹی کمیشن
اسلام آباد (انٹرویو: عبدالستار چودھری) نیشنل مینارٹی کمیشن کے چیئرمین چیلا رام کیولانی اور ممبر ڈاکٹر جے پال نے کہا ہے کہ ہم تبدیلی مذہب کی مخالفت نہیں کرتے، زبردستی کروائی گئی شادیوں کے خلاف ہیں، ریاست کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لاء آف لینڈ کا تحفظ اقلیتوں کو بھی فراہم کرنا چاہیئے، پاکستان میں اقلیتوں کو بھی چائلڈ میرج لاء کا تحفظ ملنا چاہیئے، موجودہ حکومت نے پہلی بار مینارٹی کمیشن بنایا ہے اور اب کمیشن کے ایکٹ پر کام ہو رہا ہے، ماضی کی حکومتوں نے اقلیتوں کے حقوق کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے، اقلیتوں کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ، موجودہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے پر ہم حکومت کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب بل پر اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، بل پر اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کے بعد متفقہ تجاویز تیار کریں گے، قائداعظم نے پہلا چیئرمین کشمیر کمیٹی ایک ہندو کو بنایا تھا ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ چیئرمین کشمیر کمیٹی کی ذمہ داری ایک ہندو کو دی جائے تاکہ ہم مودی حکومت کے خلاف موثر آواز بلند کر سکیں۔ چیئرمین نیشنل کمیشن فار مینارٹیز چیلا رام کیولانی اور ممبر کمیشن ڈاکٹر جے پال گزشت روز ’’نوائے وقت‘‘ سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔ چیئرمین چلارام کیولانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اقلیتوں کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں، کٹاس مندر ہمارے حوالے کر دیا گیا ہے، پشاور میں ایڈورڈ کالج کی حوالگی اور کرتار پور راہداری کا قیام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے ٹھوس اقدامات ہیں۔ ممبر نیشنل مینارٹی کمیشن ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف شادی کے مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، ہم مذہب کی تبدیلی کی مخالفت نہیں کر رہے لیکن عجیب بات ہے کہ صرف غریب گھرانوں کی 18 سے 25 سال کی بچیاں ہی اسلام قبول کرتی ہیں، امیر اور پڑھی لکھی اقلیتی برادری میں سے کوئی اسلام قبول کیوں نہیں کرتا، درحقیقت یہ جبری شادی ہوتی ہے جس کو تبدیلی مذہب کا نام دیا جاتا ہے اور ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ شادی کی کم از کم عمر کی پابندی کروائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ڈرائیونگ لائسنس، ووٹ کا حق اور دیگر معاملات میں میچورٹی کا انتظار کیا جاتا ہے تو اقلیتی غریب بچیوں کی شادی کے معاملے پر کیوں اس چیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 30 مارچ 1940 کے کنونشن میں یہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی کہ اٹھارہ سال سے قبل تبدیلی مذہب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ قائداعظم نے رتی جناح سے شادی کے لئے اس کے اٹھارہ سال کا ہونے کا انتظار کیا تھا۔ ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ مذہب کی تبدیلی کے معاملے کو عدالت میں طے کیا جانا چاہیئے، چائلڈ میرج کا تحفظ جو مسلمانوں کو حاصل ہے وہ ہندوئوں اور دیگر اقلیتوں کو بھی فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے کشمیر کمیٹی کا پہلا چیئرمین ہندو گوگندر ناتھ منڈل کو بنایا تھا، جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح ہم بھی مودی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صدر اور وزیراعظم اقلیتی برادری کا رکن نہیں بن سکتا، لیکن اٹھارھویں ترمیم میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ بھی اسی فہرست میں شامل کر دیا ہے، اس پر پیپلزپارٹی سے اختلاف بھی کیا تھا کہ ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے اقلیتی رکن جسٹس کارنیلئس کو دو بار چیف جسٹس بنا دیا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے اقلیتوں کو اس عہدے سے بھی محروم کر دیا۔ ایک سوال پر ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ تبدیلی مذہب کے حوالے سے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔