آج فلاحی جمہوری پاکستان کو مستحکم بنانے کے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے
وزیر اعظم اور آرمی چیف کا ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے کا عزم اور مہنگائی میں اضافے کا تسلسل برقرار
وزیراعظم عمران خاں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین ملاقات میں گزشتہ روز ملکی سیکورٹی کی صورتحال اور پاک فوج کے پیشہ ورانہ امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا، ملاقات میں مقبوضہ کشمیر، مغربی سرحدوں اور اندرونی سلامتی کی صورتحال پر بات چیت کی گئی، وزیر اعظم نے ملکی سرحدوں کے دفاع کے لئے فوج کی مسلسل مساعی کو سراہا۔ وزیر اعظم نے فوج کی طرف سے اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے اور معاشی ترقی میں مدد دینے کی بھی تعریف کی، دریں اثناء آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فرنٹیئر کور کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز کی کوششوں کی بدولت ملک میں سماجی اور معاشی ترقی کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب دائمی استحکام کی منزل کی جانب سفر شروع ہے اور آپریشنز میں حاصل کئے گئے امن اور استحکام کے ذریعے ترقیاتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے سابق فاٹا اور صوبہ خیبر پی کے میں قیام امن اور استحکام امن کے لئے فرنٹیئر کور کی خدمات کی شاندار الفاظ میں تعریف کی، انہوں نے فرنٹیئر کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، یاد گار شہداء پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر ایف سی میوزیم اور قلعہ کی گیلری کا بھی دورہ کیا جنہیں عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے شہداء اور ان کے خاندانوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے مادر وطن کے دفاع کے لئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں۔
ہمارے لئے یہ صورت حال بلاشبہ فخر و انبساط کا باعث ہے کہ عساکر پاکستان نے بیرونی چیلنجوں کے مقابل دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کی ملک دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں بھی ناکام بنانے کے لئے آئین کے تقاضے کے مطابق ہمیشہ ٹھوس اور موثر کردار ادا کیا ہے اور ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں کرنے والے عناصر کو سرحدوں پر بھی اورملک کے اندر بھی دھول چٹائی ہے۔ اس سلسلہ میں دہشت گردی کی جنگ میں ہماری سیکورٹی فورسز کا کردار قابل فخر اور مثالی رہا ہے جنہوں نے کراچی، شمالی جنوبی وزیرستان، مہمند ایجنسی، پشاور، کوئٹہ اور ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی بھرپور کارکردگی کی بنیاد پر دہشت گردی کا ناسور جڑ سے ختم کر دیا ہے اور آج اکا دکا دہشت گرد اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے کہیں نہ کہیں دہشت گردی کی واردات کر جاتے ہیں ، جیسا کہ گزشتہ روز بھی کوئٹہ میں بلیلی کے مقام پر دہشت گردوں نے فورسز کی گاڑی کو ٹارگٹ کر کے بم دھماکہ کیا جس کے نتیجہ میں دو سیکورٹی اہلکار شہید اور چھ اہلکار زخمی ہوئے، یہ دھماکہ خیز مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا جسے فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑایا گیا۔ یقیناً اس دہشت گردی کا مقصد دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے والی کارروائیوں کے برخلاف فورسز کے حوصلے پست کرنا اور انہیں دہشت گردی کی جنگ سے ہٹانا ہے مگر ہماری جری و بہادر فورسز دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں و سرپرستوں کی ہر سازش ناکام بنانے کے لئے پُرعزم ہیں۔ آرمی چیف نے اسی تناظر میں گزشتہ روز فرنٹیئر کور ہیڈ کوارٹر کے دورے کے موقع پر شہداء اور ان کے خاندانوں کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ بلاشبہ ہماری فورسز کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں کے باعث ہی آج ملک میں مجموعی طورپر امن و امان کی صورتحال بحال ہو چکی ہے۔
اسی طرح آج ملک کی سلامتی کو مکار دشمن بھارت کے ہاتھوں جو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں‘ ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بھی عساکر پاکستان ہمہ وقت مستعد و چوکس ہیں اور ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کنٹرول لائن پر اگلے مورچوں تک جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے اور دشمن کو ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہونے کا ٹھوس پیغام پہنچاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے دو ہفتے قبل کور کمانڈز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا تھا کہ ہم نے ملک کی داخلی سلامتی کی بہتر صورتحال اور استحکام‘ اجتماعی قومی کوششوں‘ مسلح افواج‘ تمام قومی اداروں اور سب سے بڑھ کر قوم کی لازوال قربانیوں کی بدولت حاصل کیا ہے اس لئے کسی کو مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے یہ ثمرات ضائع کرنے کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے ساتھ ہی اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ ریاستی ادارے کی حیثیت سے پاک فوج سے جب بھی آئین پاکستان کے تحت دیگر قومی اداروں کے لئے مدد طلب کی جائے گی وہ ہم فراہم کرتے رہیں گے۔ یقینا عساکر پاکستان کے اس ٹھوس کردار کی بدولت ہی آج ملک میں امن و امان کی راہ ہموار ہوئی جس سے اقتصادی ترقی اور استحکام کے بھی راستے نکلے ہیں جس پر وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف سے گزشتہ روز ملاقات کے دوران اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
بے شک آج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوںکے تناظر میں ہمیں ملکی اور قومی استحکام کی زیادہ ضرورت ہے جبکہ عساکر پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کیساتھ ساتھ ملک کے اندر کسی خلفشار پر قابو پانے کیلئے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں‘ تاہم اس کی نوبت اس وقت ہی آتی ہے جب سول انتظامیہ‘ اپنے ماتحت سکیورٹی اداروں‘ کے ذریعے ملک کے کسی علاقے میں پھیلے انتشار و خلفشار پر قابو پانے میں ناکام ہو جائے۔ ملک کے اندر کسی قسم کا انتشار و اضطراب پیدا نہ ہونے دینا فی الحقیقت سول انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام انتخابات میں کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو اقتدار کا مینڈیٹ اپنے روزمرہ کے گھمبیر روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کیلئے ہی دیتے ہیں‘ اگر عوام کی منتخب حکومت صحیح معنوں میں اس مینڈیٹ کی پاسداری نہ کرے اور اس کی سیاسی‘ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوںسے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے ان مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے تو مسائل میں گھرے عوام کا مضطرب ہونا بھی فطری امر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ یہی المیہ ہوا ہے کہ اس کے دور میں سول اور عسکری قیادتوں کے مابین اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے باہمی تعاون کی مثالی فضا استوار ہونے کے باوجود عوام کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے کے معاملہ میں وہ اس فضا سے فائدہ نہیں اٹھا سکی اور ملک میں مہنگائی کا عفریت روزبروز توانا ہوتا نظرآتا ہے۔ گزشتہ روز موجودہ ایک مہینے کے دوران تیسری بار بجلی کے نرخوں میں 18 پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے بجلی کے صارفین پر مزید اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اسی طرح گزشتہ دو ہفتے سے جس انداز میں اشیائے خوردونوش، پھلوں اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ جاری ہے وہ حکومتی گورننس کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خاں کا کہنا ہے کہ ملک میں مصنوعی مہنگائی کر کے حکومت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو یہ بھی انتظامی معاملات میں حکومت کی رٹ کمزور ہونے کا عکاس ہے۔
اگر انتظامی معاملات درست کرنے کے لئے بھی ملک کی سیکورٹی فورسز کے کردار پر تکیہ کیا جائے گا تو اس سے ایک تو ملک کی سلامتی کو درپیش بیرونی چیلنجوں سے عہدہ براء ہونے کے معاملہ میں فورسز کی توجہ بٹے گی اور دوسرے سول انتظامیہ اور حکومت کی اپنی رٹ بھی کمزور ہونے کا تاثر پختہ ہو گا جو جمہوریت کی عملداری کے حوالے سے بہرصورت تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ بلاشبہ اپوزیشن اور دوسرے حکومت مخالف عناصر کو بھی حکومت کی ایسی ہی کمزوریوں کو بھانپ کر اس کے خلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے اور مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ، دھرنے اور پلان بی جیسی حکومت مخالف تحریک چلانے کا موقع ملتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ اور اسلام آباد دھرنے کی بنیاد پر بے شک وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے اور نئے انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر ان کی تحریک کے تسلسل سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا تو بہرصورت ہموار ہو رہی ہے جس کا حکومت ہی نہیں، موجودہ حالات میں ملک کو بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ملک کی عسکری قیادتوں کے لئے بھی یقیناً یہی امر فکر مندی کا باعث بنا ہے اس لئے وہ ملک کے اندر بھی کسی عدم استحکام سے عہدہ براء ہونے کے لئے سول حکومت کی معاونت پر کمربستہ نظر آتی ہیں۔ تاہم حکومت کو اپنے مینڈیٹ کے تقاضوں کی روشنی میں ایک فلاحی جمہوری پاکستان کو مستحکم بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات بہرصورت بروئے کار لانے چاہئیں جس کے لئے سیاسی رواداری کو فروغ دینا بھی ضروری ہے تاکہ ماضی جیسی ایسی کسی سیاسی تلخی اور محاذ آرائی سے بچا جا سکے جو جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہوتی رہی ہے۔ اس کے لئے قومی ڈائیلاگ کا راستہ کھول کر سیاسی محاذ پر پیدا ہونے والی کشیدگی اور گرما گرمی پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس کے لئے عوام کو مطمئن کرنا بھی ضروری ہے جو انہیں بالخصوص مہنگائی ، بے روزگاری کے مسائل میں ریلیف دینے سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں بہرصورت ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سلامتی کے درپے ہمارے دشمن بھارت اور ملک کے اندر پھیلائے اس کے ایجنٹوں کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ملک میں افراتفری کا ایجنڈہ پایۂ تکمیل کو پہنچانے کا موقع نہ مل سکے۔ بے شک یہ ملک حکومت اور اپوزیشن سمیت سب کا ہے جس کے دفاع و تحفظ اور استحکام کے لئے ہم سب نے کردار ادا کرنا ہے۔ کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ملک میں کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لئے قومی ادارے عساکر پاکستان کی معاونت حاصل کرنے کی نوبت نہ آئے تاکہ وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔