اتوار‘19 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 17؍ نومبر2019 ء
مقابلے کی دوڑ میں ادرک پہلی پوزیشن پر آ گیا ٹماٹر کی تیسری پوزیشن
حکومت کی طرف سے ایران سے ٹماٹر خریدنے اور خیبر پی کے سے ٹماٹر کی تازہ فصل بازار میں آنے سے ٹماٹر کو مقابلے کی دوڑ میںجو پہلی پوزیشن کئی ہفتوں سے حاصل تھی وہ برقرار نہ رہ سکی۔ ادرک نے سخت مقابلے کے بعد یہ پوزیشن ٹماٹر سے چھین کر اپنی واضح برتری ثابت کر دی ہے۔ یوں تو سبزیوں کی گڈی اس وقت چڑھی ہوئی ہے۔ ہر ایک سبزی جست بھر کر آگے نکلنے کی کوشش میں نظر آتی ہے۔ ان کی اس دوڑ میں ان کا تعاقب کرتے کرتے عوام کی سانسیں پھول گئی ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو سبزی مافیا کو ترس آ رہا ہو۔ اس وقت مقابلے کی دوڑ میں پہلی پوزیشن ادرک کو حاصل ہے جو 400 روپے کلو کے حساب سے بک رہا ہے۔ دوسری پوزیشن لہسن کے پاس ہے جو 300 روپے کلو ہے۔ اب تیسرے نمبر پر ٹماٹر ہے جو اب 250 روپے کلو پر آ گیا ہے۔ عوام حکومت کے شکر گزار ہیں کہ ایران سے ٹماٹر منگوانے کی اجازت د ے کر اس نے ٹماٹر مافیا کے چہرے کی لالی چھین لی ہے۔ ادرک اور لہسن کوئی خاص مسئلہ نہیں ان کے بنا بھی ہانڈی پک ہی جاتی ہے۔ مگر پیاز ، ٹماٹر کے بغیر تو ہانڈی چڑھتی ہی نہیں جو مرضی کر لیں گھریلو خواتین ٹماٹر پیاز کے بغیر کھانا بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اب ذرا ٹماٹر کے ہوش ٹھکانے آنے سے خواتین خوشی محسوس کریں گی ٹماٹر کو خواہ ایک عدد ہی کیوں نہ ہو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہانڈی میں ڈالنے سے ادرک اور لہسن بھی کب تک ہاون دستہ (چٹووٹے) کی زد سے آنے سے بچتے رہیں گے۔ جلد ہی وہ بھی اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا ڈر کا ہے کی تصویر بنے باورچی خانوں میں کوٹے جا رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭
پشاور ہائی کورٹ نے جے یو آئی کو سڑکیں بند کرنے سے روک دیا
اس پابندی کو جے یو آئی والوں نے فی الحال کسی حد تک تو اڑن چھو کر رکھا ہے۔ مختلف شہروں میں مختلف مقامات پر وہ دھرنے دے کر سڑکیں بلاک کر رہے ہیں۔ عوام پریشان مسافر خوار ہو رہے ہیں ۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں سڑکوں پر بے یارومدد گار کھڑی رہتی ہے۔ اس سے تو لاکھ درجہ بہتر تھا مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں ہی مورچہ زن رہتے، کم از کم دھرنے کا مقام ایک ہی رہتا۔ جہاں سے وہ روزانہ کی بنیاد پر حکومتی قلعہ پر اطمینان سے تقریری گولہ باری کرتے۔ اس طرح کم از کم عوام تو خوار ہونے سے محفوظ رہتے۔ اب مولانا نے کمال مہربانی سے اعلان کیا ہے کہ دھرنا دینے والے رات کو سڑکیں کھول دیں۔ کہیں یہ ڈاکوئوں سے سازباز تو نہیں۔ عدالت نے حکم تو دیدیا ہے۔ اب اس پر عمل کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خیبر پی کے حکومت تو دھڑلے سے کہہ رہی تھی کہ دیکھیں گے کون سڑکیں بند کرتا ہے۔ اب وہ دیکھ رہی ہے تو کچھ کرتی کیوں نہیں۔ کہاں گئے وہ شوکت یوسفزئی اور مراد سعید صاحب جو مولا جٹ اورور ٹوپک زما قانون والے ڈائیلاگ بول بول کر سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ اب وہ کچھ کیوں نہیں کرتے۔ باقی صوبوں کو چھوڑیں کم از کم خیبر پی کی حد تک ہی وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے دھرنے والوں سے سڑکیں واگزار کرائیں تو لوگ کہہ سکیں گے واہ جی واہ۔ فی الحال تو ہر طرف سے ٹریفک میں پھنسے لوگ ہائے ہائے کرتے نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
برداشت کا عالمی دن گزشتہ روز منایا گیا
دنیا بھر میں برداشت کے حوالے سے کہیں سے بھی کوئی اچھی رپورٹ سامنے نہیں ہے۔ ہر طرف عدم برداشت کے چرچے چھائے نظر آتے ہیں۔ امریکہ کی برداشت بات بات پر جواب دے جاتی ہے۔ کوریا ہو بھارت ہو یا ایران اور سعودی عرب یہی صورتحال ہے۔ برداشت عنقا ہے۔ ترک اور شام بھی برداشت کھو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اس وقت حقیقت میں برداشت کی قوت پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ عالمی امن قائم رہ سکے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں دیکھ لیں برداشت کب کی رخصت ہو چکی۔ ذرا ذرا سی بات پر ہم بھڑک اٹھتے ہیں۔ اب اس کے جواب میں خواہ ہمارا اپنا دامن ہی کیوں نہ جل اٹھے۔ جس معاشرے میں برداشت کی کمی ہو وہاں کا امن و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہم بھی عدم برداشت کا شکار ہیں۔ حالانکہ جو مزہ دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں اور غلطیوں کو برداشت کرنے میں ہے وہ کسی اور میں کہاں۔ خواہ حالات کا کرب ہو یا واقعات کی تلخی۔ ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا ہے:
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
کسی غصب ناک شخص کی باتوں پر ذرا ایک بار مسکرا کر اس کی طرف دیکھیں تو وہ خود شرمندہ ہو جائے گا۔ اگر ہم اپنے اندر قوت برداشت پیدا کر لیں اور تلخیوں کو فراموش کر کے مسکراتے رہیں تو ہمارا معاشرہ خودبخود جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
لاہوریوں کو آج تک پتہ نہ چلا کہ اورنج ٹرین کا وارث کون؟
آپ نے یہ پتہ کر کے کیا لینا ہے اور اگر یہ جاننے کے لیے طبیعت بے چین ہے تو کسی دن، کسی مقتدر سے پوچھ لیں۔ جب (کبھی) اورنج ٹرین چل پڑی تو ا س میں بغیر ٹکٹ سوار ہونے کی کوشش کرنا، اچھی طرح پتہ چل جائے گا۔ پچھلے لوگ کہتے تھے کہ اسے -31 دسمبر 2017ء کو چل پڑنا تھا لیکن سٹے آرڈرز کے باعث کام رکا رہا، پھر ادائیگیوں پر جھگڑے ہونے لگے، پھر اُس عدالت نے پچھلی جولائی کی حتمی تاریخ دی، جس نے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تو قدم قدم پر ’’تاریخی ورثے‘‘ نمودار ہونے لگے، دُنیا بھر میں زمین دوز ریلویز چل رہی ہیں۔ جب یہ بنی تھیں تو اُن کی گزرگاہ میں بھی تاریخی ورثے آئے، اگر وہ تاریخی ورثوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے تو وہ کچھ بھی نہ کر پاتے۔ ہم وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں۔اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹنے پہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کسی سڑک کی توسیع کامعاملہ آ جائے تو گرین لائن والے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نہ کوئی خود کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔ کریڈٹ لینے کا مرحلہ آتا ہے تو ایک دوسرے کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس لیے فی الحال لاہوریوں کے کان ’’پراں ہو جا سوہنیئے ساڈی اورنج ٹرین آئی‘‘ سننے کو ترس گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب یہ 2020 ء میں فراٹے بھرتی نظر آتی ہے یا اسکی راہگزر یونہی ویرانی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭