محمود علی…عظیم محب وطن رہنما
اس مملکتِ خداداد کی تخلیق اور تعمیر کے ضمن میں جن سیاسی رہنمائوں کی زندگی جدوجہد‘ ایثار اور قربانیوں سے عبارت رہی‘ ان میں محمود علی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے نوجوانی کے عالم میں خارزارِ سیاست میں قدم رکھا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بے لوث سپاہی کی حیثیت سے اپنا تن‘ من‘ دھن قیامِ پاکستان کے لئے وقف کردیا۔ وہ بنگال کے ایک انتہائی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے افراد اعلیٰ سول اور عسکری عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ آپ کے والد مولوی مجاہد علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون میں گریجوایشن کی تھی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے جن کے بنگالی زبان میں متعدد مجموعہ ہائے کلام موجود ہیں۔ یکم ستمبر 1919ء کو عالم باغ سنام گنج‘ سلہٹ میں آنکھ کھولنے والے محمود علی کو صرف ڈیڑھ برس پدری شفقت حاصل رہی تاہم ان کی والدہ محترمہ مجتبیٰ خاتون چوہدری کا وجود مسعود تادیر ان پر سایہ فگن رہا جن کا انتقال 30مئی 1971ء کو ہوا۔ محمود علی نے سنام گنج جوبلی ہائی سکول سے 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایم سی کالج سلہٹ میں داخلہ لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سینٹ ایڈمنڈز کالج اور سینٹ انتھونی کالج شیلانگ میں بھی داخلہ حاصل کرلیا کیونکہ ان تینوں میں سے کسی ایک کالج میں ان کی پسند کے تمام مضامین نہ تھے۔ محمود علی انگریزی زبان میں آنرز اور 1942ء میں گریجوایشن کے بعد کاروبار سے منسلک ہوگئے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب راجہ امیر احمد خاں آف محمود آباد آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ محمود علی تحریک پاکستان کے اس ہر اول دستے میں سرگرم کردار ادا کررہے تھے۔ آپ کی لگن اور جہد مسلسل کے طفیل آپ کو آسام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا اوّلین صدر منتخب کرلیا گیا۔ بعدازاں 1944ء میں آسام مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور 1946ء میں آسام صوبائی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس وقت محمود علی کی عمر صرف 27برس تھی۔ وہ مزاجاً انتہائی غریب پرور تھے اور کسی کو دکھ میں مبتلا نہ دیکھ سکتے تھے۔ اُن دنوں بنگال سے ہجرت کرکے آسام میں آن بسنے والے مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ محمود علی سے یہ سب کچھ دیکھا نہ گیا اور اُنہوں نے لائن سسٹم کے خاتمہ کیلئے تحریک شروع کردی۔ اس تحریک نے جلد ہی شدت پکڑلی اور سول نافرمانی تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ نتیجتاً ہزارہا کارکنوں اور رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ محمود علی کو آسام کے ایک علاقے دھبری کی جیل میں قید کردیا گیا۔ جب 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو اس کے تین ہفتے بعد محمود علی کو رہا کردیا گیا۔ قید و بند کی اس صعوبت نے ان کے عزم و استقامت کو متزلزل تو کیا کرنا تھا‘ اُنہوں نے پہلے سے بھی زیادہ پُرجوش انداز میں سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرانے کی تاریخ ساز جدوجہد شروع کردی۔ 8جولائی 1947ء کو ریفرنڈم منعقد ہوا جس میں سلہٹ کے عوام نے بھاری اکثریت سے پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلہٹ کا پاکستان میں شامل ہونا آپ کی جدوجہد کامرہون منت تھا تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔
1951ء میں ڈھاکہ میں ’’پاکستان یوتھ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس کی صدارت محمود علی نے کی۔ تاریخی اہمیت کی حامل اس کانفرنس میں ’’ایسٹ پاکستان یوتھ لیگ‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم معرضِ وجود میں آئی جس کا صدر محمود علی کو منتخب کیا گیا۔
1953ء میں ملکی سیاست میں اتار چڑھائو کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایک متحدہ محاذ تشکیل دے دیا۔ محمود علی کے گناتنتری دَل نے اس متحدہ محاذ میں سرگرم کردار ادا کیا۔ 1954ء کے عام انتخابات میں محمود علی نے متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے علاقے سنام گنج سے مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ابھی مولوی اے کے فضل الحق کی وزارت قائم ہوئے محض 57دن گزرے تھے کہ صوبائی وزارت کو غیر قانونی طور پر بلاجواز برطرف کردیا گیااور ہزاروں کارکنوں اور رہنمائوں کو جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ محمود علی‘ ان کی اہلیہ‘ بچے اور متعدد دیگر اہل خانہ بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ اہلیہ اور بچوں کو تو چھ ماہ بعد رہا کردیا گیا تاہم انہیں 14ماہ بعد رہائی نصیب ہوئی۔ جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دوسری دستور ساز اسمبلی تشکیل دی تو 1955ء میں محمود علی اس دستور اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ ابھی آئین سازی کا کام جاری تھا کہ نومبر 1955ء میں انہیں ایک مرتبہ پھر سیفٹی ایکٹ کے تحت کراچی میں پابند سلاسل کردیا گیا۔ کراچی سے انہیں ڈھاکہ کی سنٹرل جیل منتقل کیا گیا جہاں 3جنوری 1956ء تک وہ قید و بند میں رہے۔ ستمبر 1956ء میں آپ عوامی لیگ اور گناتنتری دَل کی مخلوط کابینہ میں ریونیو اور جیل خانہ جات کے وزیر رہے۔ اپنی وزارت کے دوران محمود علی نے اراضی اصلاحات کے بارے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کی سفارشات کا اطلاق سب سے پہلے اپنی ذات پر کیا۔ 29جنوری 1957ء کو آپ نے اختلاف کے باعث کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اسی روز ڈھاکہ میں ایک کنونشن منعقد ہوا جس میں پورے ملک سے جمہوریت پسند رہنمائوں اور کارکنوں نے اس غرض سے شرکت کی کہ باہمی غور و خوض کے بعد ایک جمہوری سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ محمود علی کی گناتنتری دَل اس نئی سیاسی جماعت میں ضم ہوگئی اور وہ اس کی مشرقی پاکستان شاخ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ 1958ء میں اُنہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ چائنہ پاکستان فرینڈشپ سوسائٹی دعوت پر عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کیا۔
ملک میں جاری سیاسی بحران کا حل نکالنے کی خاطر صدر جنرل محمد ایوب خان نے فروری 1969ء میں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں محمود علی نے پاکستان نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے شرکت کی۔ 1969ء میں چار سیاسی جماعتوں نے اپنا تشخص ختم کرکے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی بنالی جس کے قیام میں محمود علی نے سرگرم کردار ادا کیا۔ نورالامین اس کے سربراہ جبکہ محمود علی سینئر ترین نائب صدر منتخب کرلئے گئے۔پاکستان اور اس کے بنیادی مفادات کے ساتھ ان کی اٹوٹ وابستگی کا عالم یہ تھا کہ جب 17نومبر 2006ء کو لاہور کے ایک نجی سکول میں منعقدہ تقریب میں کشمیر کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ان کے دِل ناتواں کی دھڑکن مدھم پڑنے لگی تو ان کی زبان پر جاری آخری فقرہ یہ تھا: ’’کشمیر پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘ بھارت اور دیگر اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی سازشوں کے باعث مشرقی پاکستان کا بحران بتدریج شدت اختیار کررہا تھا۔ وہاں فوجی آپریشن کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوگئے۔ ان دنوں بھارت کی پوری ریاستی مشینری پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے میں مصروف تھی اور یہ بے بنیاد تاثر پھیلا رہی تھی کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کا استحصال کیا ہے جس کی وجہ سے وہ علیحدگی چاہتے ہیں۔ اس مکروہ پراپیگنڈے کے سد باب کے لئے حکومت پاکستان نے جون 1971ء میں محمود علی کو یورپ اور افریقہ کے دورے پر روانہ کیا تاکہ عالمی برادری کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا جاسکے۔ اس دوران اُنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 26ویں اجلاس میں شریک پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ ان کی اَن تھک محنت کی بدولت جنرل اسمبلی کے 105رکن ممالک نے دسمبر 1971ء کی جنگ میں بھارت کو جارح ملک قرار دیا۔ باالفاظ دیگر ان کا یہ دورہ انتہائی موثراور تاریخ ساز اہمیت کا حامل رہا۔
16دسمبر 1971ء کو نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی تاریخ کا ایک دلدوز سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کردیا۔ اس علیحدگی کو محمود علی نے کبھی قبول نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام متحدہ پاکستان کے حامی تھے اور کسی نے ان سے کبھی یہ نہ پوچھا تھا کہ آیا وہ مغربی پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہیں؟وہ آخری دم تک پاکستان کے دونوں بازوئوں کے از سر نو اتحاد کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے لئے اُنہوں نے 1985ء میں ’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اُنہوں نے کبھی بنگلہ دیش جانا گوارا نہ کیا حالانکہ وہاں ان کی آبائی زمینیں‘چائے کے باغات اور دیگر جائیدادیں موجود تھیں۔ ان کے اس ایثار اور قربانی کا اعتراف حکومت پاکستان نے یوں کیا کہ انہیں تا حیات وفاقی وزیر کا درجہ عطا کردیا۔ عہد حاضر میں مادر وطن کی نظریاتی و جغرافیائی تکمیل ان کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ متحدہ پاکستان کے سب سے قدآور عَلم بردار تھے۔ نظریۂ پاکستان یا دو قومی نظریہ ان کے رگ و پے میں خون کی مانند گردش کرتا تھا۔ اُن کا فکر و عمل وطن عزیز کے موجودہ سیاسی رہنمائوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
٭…٭…٭