ہیپی برتھ ڈے کہنا بھی آسان نہیں!

مہنگائی کے تحفے کے اثرات اس قدر وسیع اور اتنے گہرے ہو گئے ہیں کہ کوئی شعبہ اور کوئی شے اس سے محفوظ نہیں۔ ہماری سماجی اور ثقافتی روایات بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اپنے کسی عزیز رشتہ دار اور دوست کی سالگرہ ہو تو اسے ’’ہیپی برتھ ڈے‘‘ کہنا بھی آسان نہیں رہا۔ اچھے خاصے پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی تو بس حسرت سے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جہاں امیر لوگوں کی بات ہے تو وہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ دراصل پہلے معیشت کے حوالے سے تین درجے ہوا کرتے تھے۔ غریب، متوسط اور امیر طبقہ۔ لیکن اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ متوسط طبقہ نیچے آ کر غریبوں میں شامل ہو چکا ہے جبکہ امیر لوگ پہلے سے بھی زیادہ امیر ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہہ ہر موقع اور تہوار پر امارت کی نمائش ہوتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں معروف بھارتی اداکار نے اپنی 54 ویں سالگرہ اپنے دوست احباب کے ساتھ روایتی انداز سے منائی۔ سبھی نے ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی تحفہ پیش کیا۔ ان کے ا یک دوست نے ذرا مختلف انداز سے وِش کیا۔ ’’شاہ رخ خان کو سالگرہ مبارک ہو‘‘ یہ الفاظ دبئی کے ’’برج خلیفہ‘‘ پر خاص روشنیوں سے جگمگانے لگے تو مقامی لوگ ہی نہیں ساری دنیا میں لوگ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ سوشل میڈیا نے لمحوں میں یہ خوبصورت مبارک باد عام کر دی حتیٰ کہ موصوف کو بھی انوکھی اور منفرد مبارک باد کا نظارہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اس کاوش پر معمولی نہیں، اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
ایک اور مثال پیش کر کے اس موضوع کو واضح کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ پر دنیا بھر سے سکھ خواتین و حضرات نے کرتارپور میں واقع ان کی یاد میں تعمیر شدہ عمارت میں اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا۔ بابا گورونانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال یہاں گزارے۔ اس لحاظ سے سکھوں کے لیے کرتار پور کا مقام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں انڈین سٹار نوجوت سنگھ سدھو اور دیگر سکھ برادری کے سرکردہ لوگوں نے پاکستان سرکار کو کرتار پور یاترا کا بندوبست کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے کرتار پور گوردوارہ کو شایان شان طریقے سے کھولنے کی منظوری دی۔ جس کے تحت انتظامات شروع کرنے پر غور کیا جانے لگا۔ اس اہم موقع پر کرتار پور یاترا کو عملی شکل دینے کے لیے بہت اچھے فیصلے کئے گئے تاکہ بابا گورونانک کی سالگرہ شاندار طریق سے منائی جا سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ کرتار پور کی عمارت کو دیکھنے کے لیے بھارتی پنجاب میں لوگ دور بین کا استعمال کرتے ہیں۔ بعض سکھ خواتین و حضرات شدتِ جذبات سے رونے بھی لگتے ہیں۔ جب یہ خبر عام ہوئی کہ اربوں روپے کی لاگت سے حکومت پاکستان کرتار پور کا راستہ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے تو دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سکھوں نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے بتایا کہ وہ ہر سال سالگرہ کے علاوہ مختلف اوقات میں بھی یاترا کیا کریں گے۔ اب کرتار پور میں گوردوارے کے لیے وسیع اراضی مختص کر کے پاکستان کی حکومت نے یاتریوں کے قیام و طعام اور آمدورفت کے لیے بھی عظیم الشان انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ بابا گورونانک کی سالگرہ کے لیے اربوں روپے کے اخراجات سے ایک یادگار تحفہ دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے ایک یادگار ڈاک ٹکٹ اور دھاتی سکے بھی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلاشبہ اس سنہری کارنامے کا سہرا نوجوات سنگھ سدھو اور اس کے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے سر پر ہے۔
سکھوں کے ساتھ اہل پاکستان کے دوستانہ مراسم گہرے ہو چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے بڑی تعداد میں لطیفے بھی زبانِ زدعام ہیں۔ مگر یہ دوست بُرا نہیں مناتے۔ دن کے بارہ بجنے پر بلاجوجہ اور خواہ مخواہ کہا جاتا ہے کہ سکھ اس وقت کوئی اُلٹا کام ضرور کرتے ہیں۔ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ اس معاملے میں بھی اربوں روپے خرچ ہو گئے ہیں تب کہیں جا کر جنم دن کا تحفہ تیار ہوا ہے یارو! مہنگائی مار گئی ہے۔ امیر لوگ اور حکومتیں ہی اپنے دوستوں اور پیاروں کو ’’ہیپی برتھ ڈے‘‘ بڑے فخر سے کہہ سکتی ہیں۔ عام اور متوسط طبقے کے لوگ تو تحفہ خریدنے کی ہمت نہیں کرتے۔ کیا دور آ گیا ہے کہ یار لوگ اپنے پیاروں کو آسانی اور سہولت سے ہیپی برتھ ڈے بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ آسان کام نہیں رہا۔
٭…٭…٭