جعلی اکاﺅنٹس کیس:انتہائی بااثر لوگ ہیں کراچی میں رہتے ہوئے شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی ،چیف جسٹس کا غنی مجید اور حسین لوائی کو اسلام آبادمنتقل کرنے کا حکم
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی اکاﺅنٹس کیس میں گرفتار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید اور نجی بینک کے سابق سربراہ حسین لوائی کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم د یدیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ انور مجید کو ایئرایمبولینس کے ذریعے اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کریں جبکہ عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ وہ 10روز میں تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ ہفتے کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکااﺅنٹس کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت آئی جی سندھ پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تینوں شخصیات کو پمز اور اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے تاکہ ان سے روزانہ کی بنیاد پر تفتیش ہو سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی بااثر لوگ ہیں اور ان کا تعلق کراچی سے ہے اس لئے ان سے کراچی میں رہتے ہوئے شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے استدعا کی کہ ملزمان کو کراچی میں ہی رہنے دیا جائے اور جے آئی ٹی ان سے تفتیش کرے۔ تاہم چیف جسٹس نے یہ استدعا مستردکر دی اور حکم دیا کہ انور مجید کو پمز ہسپتال اور اے جی مجید اور حسین لوائی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ بہت بااثر ہیں ،کراچی میں ان کا اپنا راج ہے انہیں اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ آزادانہ تفتیش مکمل ہو سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مکمل تفتیش کے بعد دیکھا جائے گا کہ انہیں آیا کراچی واپس بھیجا جائے یا نہیں۔ ہم نے جے آئی ٹی صرف اس لئے بنائی تاکہ جان سکیں کہ کک بیکس کے پیسے کو قانونی کس طرح بنایا گیا ۔ دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید انکوائری میں تعاون نہیں کر رہے۔ا س پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جے آئی ٹی کو بااختیار بنا دیا ہے۔ 10 دن میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ کیس میں ملوث ملزمان کے گواہوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گواہ لاپتہ ہے اور ان کا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ عدالت اس کا نوٹس لے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ سندھ سے ان کی بازیابی کا کہیں یا ان کے باس سے بات کی جائے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمجھ گئے ہیں کہ میں یہ بات کیوں کر رہا ہوں کہ ان کے باس سے بات کی جائے تاکہ لاپتہ گواہ بازیاب ہو سکے۔ دوران سماعت چیف نے پوچھا کہ کیا جے آئی ٹی نے ملزمان سے اپنی تمام تحقیقات مکمل کر لی ہیں جس پر جے آئی ٹی ارکان نے کہا کہ ابھی تک انہیں ملزمان تک رسائی نہیں دی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انور مجید کو کراچی کے ہسپتال سے فوری طور پر ایئر ایمبولینس کے ذریعے پمز ہسپتال منتقل کیا جائے جبکہ حسین لوائی اور اے جی مجید کو کراچی سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ دوران سماعت انور مجید کی اہلیہ نے چیف جسٹس سے اپیل کی ان کے شوہر بیمار ہیں انہیں کراچی میں ہی رہنے دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی ساتھ آ جائیں اور اپنے شوہر کی خدمت کریں۔ جب یہ پمز اور اڈیالہ جیل میں رہیں گے تو میرے قریب رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے قریب رہیں گے جس سے ان کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور کیس میں بھی پیش رفت ہو گی۔عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کو 10 روز میں تفتیشی رپورٹ مکمل کر کے سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اومنی گروپ نے چاروں بینکوں جن میں سمٹ بینک، سندھ بینک، سلک بینک اور نیشنل بینک کو جو رقم دینی ہے کیا آپ کو یہ طریقہ کار منظور ہے۔ اس پر تمام بینکوں کے سربراہان نے کہا کہ انہیں ابھی تک صرف پراپرٹی بتائی گئی اور اس پراپرٹی کا تخمینہ اومنی گروپ نے ہی لگا کر بتایا ہے لہٰذا ہم حقیقی تخمینہ سے مطمئن نہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جو بتائی گئی جائیداد ہے اور اومنی گروپ کی طرف سے جو بتائے گئے انڈسٹریل پلاٹس ہیں اور جو ان کے ذاتی پلاٹس ہیں ان کا تخمینہ لگا کر 10 روز میں رپورٹ پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ بیان حلفی غلط ثابت ہوا اور جائیداد کی وہ قیمت جو بتائی گئی وہ درست نہ ہوئی تو پھر بینکوں کے سربراہان ذمہ دار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے اس حوالےسے پورا معاہدہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔