نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔قوم کے معمار ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔نوجوان ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران نوجوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میں آپ کی طرح جوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے،آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے‘‘۔نوجوان دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ہمت و جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ ان کی خوبی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔اس قوم کی راہ ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں۔جن قوموں کے نوجوان ان صفات سے عاری یعنی سست وکاہل ہوں گے، وہ قومیں خودبخود بربادی کی طرف رواں ہو جائیں گی۔
گزشتہ روزوزیراعظم عمران خان نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ وطن عزیز میں 35سال سے کم عمر کی 13کروڑ آبادی ایسا قیمتی اثاثہ ہے جو ملک کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ وہ یقینا یوتھ پروگرام کے حوالے سے بہت سی خواہشات سینے میں لیے پھرتے ہیں جنہیں وہ عملی جامہ پہنانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں ۔ اور ویسے بھی وہ الیکشن سے قبل یہ اکثر کہتے رہے ہیں کہ نوجوانوں کو تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور ان کی ہر شعبے میں شمولیت کو یقینی بنانا پی ٹی آئی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔دراصل کامن ویلتھ یوتھ گلوبل ڈویلپمنٹ انڈیکس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی پوزیشن جو سال 2013ء میں 89ویں نمبر پر تھی ، کم ہو کر 154ویں پوزیشن پر آ گئی ہے جبکہ تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع، سیاسی عمل اور دیگر امور میں شمولیت کے حوالے سے بھی پاکستانی نوجوانوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ یہ صورتحال اپنے اندر تشویش کے پہلو رکھتی ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ ملکی آبادی کے اس توانا حصے کی تعمیری صلاحیتیں بروئے کار لانے کیلئے اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جائے اور نوجوانوں کو روزگار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں چونکہ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے زیادہ مواقع دینے کا وعدہ کیا تھا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا، اس لئے یہ بات ضروری ہو گئی ہے کہ موجودہ منتخب حکومت نوجوان افرادی قوت کو زیادہ منظم و فعال بنائے تاکہ وہ قومی زندگی میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکے۔
بہرکیف نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہم اس سرمایہ کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی انہی نوجوانوں کو مخاطب کر کے بہت سی نظمیں کہیں اُن کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لئے تھے۔ کیونکہ جب تک کسی قوم کو جگایا نہ جائے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اور سب سے پہلی بات لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ شعور ملنے پر ہی وہ قوم اپنا آئندہ کا نصب العین طے کرتی ہے۔ اقبال ناامید دِلوں میں امید کی رمق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ مسلم جوانوں سے بہت پر امید تھے۔ اپنے ایک شعر میں مسلم جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
نہیں ہے نوامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں آبادی بڑھنے کی شرح پر عام طور پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس آبادی کو تعلیم، تربیت اور ہنر مندی سے لیس کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ایسی منصوبہ بندی پر بھی توجہ نہیں دی گئی جس کے ذریعے زراعت و صنعت سمیت مختلف شعبوں کو ترقی دے کر ایک طرف خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے، دوسری جانب روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔ ہر دور میں معاشروں اور تہذیبوں کی ترقی کا پیمانہ یہی رہا ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے دور کی ضروریات کے مطابق تعلیم، تربیت اور ہنر مندی سے لیس ہوں، اپنے اپنے شعبوں میں ترقی کی منزلیں سر کر رہے ہوں اور ان کا ارتقا تحقیق و تخلیق کے شاہکاروں کی صورت میں سامنے آ رہا ہو۔ اسی لئے ترقی یافتہ کہلانے یا ترقی کی طرف قدم بڑھانے والے ممالک میں افرادی وسائل کی ترقی کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ افرادی وسائل کی تربیت سے غفلت برتنے والے معاشروں میں آبادی میں اضافہ بیشتر حالتوں میں بوجھ بن جاتا ہے۔ جس سماج میں دستیاب وسائل آبادی کی ضروریات سے کم ہوں یا وہاں کی آبادی اپنے وسائل بروئے کار لانے کی استطاعت سے محروم ہو وہ سماج بدعنوانی، جرائم اور استحصال کے راستے سے گزرتا ہوا غلامی کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشر ے میں ہمیشہ نوجوان کلیدی کردار ادا کیا کرتے ہیں تبھی ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں ۔
لیکن گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے وطن عزیز میں بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہو چکی ہے،روزگار کی صورتحال کے مطابق پاکستان اکنامک واچ کے مطابق ہر سال 20 لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں جن کی اکثریت کے لئے ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ساڑھے چار کروڑ سے زائد نوجوان بیروزگار یا نیم روزگار ہیں، زیادہ تر ملازمت کے مواقع بلیک اکانومی مہیا کر رہی ہے۔ اسی طرح حکومت کے اپنے ادارے پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے لبیر فورس سروے کے مطابق ’’ہر سات محنت کشوں میں ایک بیروزگار ہے ، 15 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً پانچ ملین نوجوان تعلیم یا روزگار سے محروم ہیں۔ سالانہ تقریباً 6 ملین نوجوانوں کو روزگار یا بہتر مواقع چاہئیں۔ محنت کی منڈی میں ہر تین میں سے صرف ایک خوش نصیب ہے جو کہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ایک سال کی شب روز محنت کے بعد پہلے نوکری پاسکے ‘‘۔ اسی حکومتی رپورٹ میں یہ بھی اقرار کیا گیا کہ آج بھی پاکستان میں لاکھوں بچے چائلڈ لیبر یا جبری محنت کا شکار ہیں۔ غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ برٹش کونسل کی طر ف سے نوجوانوں پر کی گئی ریسر چ کے مطابق ’’صرف پانچ میں سے ایک نوجوان سوچتا ہے کہ اس کے معاشی حالات مستقبل میں ٹھیک ہو نگے۔ 57 فیصد نوجوان اپنی بنیادی ضروریات بھی خود پوری کرنے سے قاصرہیں ان حالات کی وجہ سے پاکستان وہ ملک بننے جا رہا ہے جہاں امیر ہونے سے پہلے بڑھاپا آئے گا۔‘‘ اسی طرح روزنامہ ’’خبریں‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 16 فیصد کے قریب ہے جس کی وجہ سے آنے والے حالات میں پہلے سے شکستہ انفراسٹرکچر پر مزید دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان میں حقیقی اعدادو شمار کی عدم موجوگی میں رپورٹس زیادہ تر اندازوں پر ہی مبنی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے استحصال کی صحیح منظر کشی کے لئے کسی رپورٹ کے بے جان صفحوں کی بجائے یہاں زندگی گزارنے والوں کی شب و روز کا تجزیہ ہی کافی ہے۔
وطنِ عزیز میں معیاری تعلیم کے فقدان، صحت کے معاملات سے غفلت اور ہنر مندی میں کمی کی صورتحال ہمارے نوجوانوں کی توانائی کیلئے زہرِ قاتل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی تیرہ کروڑ توانا آبادی کی اہمیت کو سمجھیں، اسے تعلیم اور ہنر سے آراستہ کریں، صحت مندانہ رجحانات کی طرف اس کی رہنمائی کریں اور روزگار کے زیادہ مواقع کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں کیے گئے تجربے کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے طویل مدتی، وسط مدتی اور قلیل مدتی پروگرام بنا کر وہ تمام تدابیر بروئے کار لائی جانی چاہئیں جن کے ذریعے غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم و ہنر سے لیس کرنا اور باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنانا ممکن ہو۔ تحریکِ انصاف کی حکومت اگر اس باب میں مثبت پیش قدمی کر سکی تو یہ ایسا کام ہو گا جسے وطنِ عزیز کی تاریخ میں سنہری حرفوں سے جگہ مل سکے گی۔ ماضی میں بہت سے اچھے پروگرام اور منصوبے موقع پرستوں کی دست برد کا شکار ہو کر ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اس لئے اس پروگرام کو موقع پرستوں سے بہر طور بچانا ہو گا۔تاکہ ملک ترقی کر سکے ۔
اور میری اپنے نوجوانوں سے بھی گزارش ہے کہ ہم مسلمان قوم ہیں۔ہمیں اسلام کی تاریخ سے سیکھ کر خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔حضرت ابراہیم ؑ نے نوجوانی میں بت توڑ کر اپنے آباؤ اجداد کی غلط روایت کو ختم کیا۔حضرت یوسفؑ نے نوجوانی میں گناہ کی دعوت کو ٹھکرا کر ایمان کے راستے کو ترجیح دی۔طارق بن زیاد، محمد بن قاسم،عبدالرحمن اول، احمد شاہ ابدالی، اور شہاب الدین غوری یہ سب نوجوان ہی تھے،جنہوں نے قرآن و سنت کی بالادستی اور معاشرے کی بحالی و بقاء کے لئے اپنا تن من دھن سب قربان کر دیا اور اپنے وطن پر سب کچھ نچھاور کر دیا۔ آج ہمارے ڈھیروں مسائل ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے۔ ایسے میں نوجوان ہی اس ملک میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں اور انہی کی قوت سے پاکستان کی جیت بھی ہوگی۔ (انشاء اللہ)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024