کی محمد سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں
زندگی کی تمام تر بے کیفی‘افراتفری‘ پریشانی پیارے آقا حضرت محمدﷺکی سیرت مطہرہ سے دوری کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زیست کو سیرت پاک کے مطابق ڈھال لیا ہے‘ یا ڈھالنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ وہ بہت کم پریشان اور مایوس ہوتے ہیں۔آج کے انسان کے بڑے مسائل لالچ‘ حسد‘ انتقام اور غصہ ہیں جن کا شکار ہو کر وہ راہِ امن و استقامت ومستقیم سے بہت دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو ہرمسلمان کے دل میں پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات پاک سے محبت‘ پیار اور عشق کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ یہ محبت و عشقِ اضطراری بھی ہے روحانی بھی ہے اور یہ سرشاری دین مبین کا خاص تحفہ بھی ہے۔ لیکن محبت رسول کا دم بھرنے والے سیرت پاک سے کوسوں پرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان دنوں میں مسلمان کے ہاتھ میں سیرت پاک سے متعلق کوئی کتاب ہو‘ قرآن پاک کا ترجمہ ہو تاکہ سیرت پاک کا نور جاوداں ہر فرد کی سیرت میں اس طرح جاگزین ہو جائے اور ایک بار پھر کردار مسلم کی جھلک چشم فلک ملاحظہ کر لیجئے لیکن جلوس‘ نعرے اور پروعظ و تلقین کے پروگرام میں آپکی سیرت پاک کے ان روشن پہلو¶ں کو خاص طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے جن کے اثرات سے معاشرہ میں ریاکاری‘ ظلم‘ نفرت‘ تعصب‘ بدکرداری‘ بے ایمانی‘بدعنوانی‘ ملاوٹ‘ وحشت و بربریت‘ سود‘ فساد‘ حرص و ہوس‘ انتقام اور غصہ کا خاتمہ ممکن ہے اور ان پہلو¶ں کو اجاگر کرنے سے معاشرہ میں مساوات‘بھائی چارے کا فروغ ذات پات کی تفریق کا خاتمہ‘ غریب و امیر کے درمیان موجود حد فاصل کو ختم کرنے‘ صدقات و خیرات میں اضافے‘ زکوٰة و عشر کی بروقت ادائیگی میں رحجان تقویت پائے۔ اسی طرح ملت اسلامیہ بطور ایک زندہ معاشرہ کے عالم کفر کے سامنے نکھر کر سامنے آ جائے تو سارے عالم میں توحید کے جھنڈے لہرا سکتے ہیں لیکن جو کام ہمیں بطور مسلم سرانجام دینے کی جلدی کرنی چاہئے۔ اس میں نجانے کیوں ہم دیر کردیتے ہیں؟ سیرت پاک ﷺ سے متعلق تحقیقی و نشریاتی کام بہت اعلیٰ پیمانے پرسامنے نہیں آرہا اب ہم بطور ایک بے ہنگم‘ خود غرض‘ آزاد خیال معاشرہ کے طور پر جانے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ہم نے ابھی تک مسلم معاشرہ کی تشکیل کیلئے کوئی شعوری اورمنصوبہ جاتی تحریک شروع نہیں کی۔حالانکہ پاکستان کا تو قیام ہی ایک معاشرتی تجربہ گاہ کے طور پر عمل میں آیا تھا۔ جہاں اسلام کے زرّیں اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر پوری دنیا میں اسلامی معاشرہ کے فوائد و ثمرات سے دنیا کو آگاہ کیا جا سکے۔پاکستان اگر اسلام کی زندہ تجربہ گاہ نہیں ہے اور یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں آقا حضرت محمد مصطفےﷺکی سیرت کے پہلو پوری طرح پنپ نہیں پا رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس کے کندھوں پر ہے۔ حکومت و علماءو زعماءو صالحین و صوفیاءپیر و مرید سب کو غور کرنا چا ہئے اور سب کو مل کراس سلسلہ میں م¶ثر پلاننگ کرنی چاہئے یہی وقت کی سب سے بڑی پکار ہے۔