حکومت کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر
موجودہ حکومت کے سو دن پورے ہونے میں ابھی چند روز باقی ہیں۔لیکن تجزیاتی طبقہ یہ سمجھتا ہے عمران خان کا سو روزہ پلان ہی حکومت کےلئے تنقید کا سبب ہے۔ تجزیہ نگار الیکشن سے پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں اگر عمران خان الیکشن جیت بھی جاتے ہیں تو سب سے زیادہ تنقید ان کے اس پلان پر ہو گی۔ خیر اب تحریک انصاف کی اننگ شروع ہو چکی ہے اور تیز پچ پر عمران خان نے فوادچوہدری اور فیاض الحسن چوہان جسے جارحانہ بیٹسمین میدان میں اتار دئیے ہیں اور جن کی ہر شارٹ کی ایک ہی سمت ہے اور وہ ہے کہ ہم کسی کو نہیں چھوڑیںتاکہ تبدیلی لا سکیں۔اب بات رہ گئی سو سالہ پلان کی تو وہ بھی ناقابل عمل تھا۔ اگر عمران یہ بات پہلے نہیں جانتے تھے تو اب جان چکے ہیں لیکن اب بھی وہ اپنے اسی سو دن کے پلان کو ذہن میں لے کر چل رہے جو نہ صرف ان کےلئے بلکہ ان کی پوری ٹیم کیلئے دبا¶ کا سبب ہے اور اپوزیشن بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب وہ الیکشن جیت چکے ہیں اور اب ان کو ڈیفنس پوزیشن پر آنا پڑے گا۔انہوں نے جو سو روزہ پلان دیا ہے اگر ان کا یہ پلان پانچ سال میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے تو قوم اگلی دفعہ بھی ان کو وزیراعظم دیکھنا پسند کرے گی۔ وہ ٹیسٹ میچ کو ون ڈے بنا کر اٹیک نہ کریں تو بہتر ہو گا۔وہ اپنے فیصلوں میں جلدی برتنے کی وجہ سے نہ صرف اپنا مقام لوگوں کی نظروں میں کھو رہے ہیں بلکہ اپنی حکومت کو ناکامی کی طرف لےکر جا رہے ہیں۔
آپ یہ بات مان لیں تنقید کرنا اپوزیشن کا حق ہے وہ کریں گے اورکرپشن کے خلاف جنگ آپ کا مشن ہے آپ کریں لیکن خاموشی سے ڈھنڈورا پیٹ کر سارا شہر جگانے کی کیا ضرورت ہے۔ لمبی اننگز میں صبر ضروری ہوتا ہے اور یہ کوئی کرکٹ یا ون ڈے میچ نہیں ہے۔ آپ کے عہدے داروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی کام ہوتا نہیں اور یہ شور پہلے مچا دیتے ہیں۔ جو کسی بھی طرح حکومت کے فائدے میں نہیںالٹا نقصان ہوتا ہے۔ ہمیشہ کوئی بھی بات کرتے وقت حالات اور وقت کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ میری گزارش ہے کہ آپ اپنے عہدے داروں کو تلقین کریں کہ اپنے کام پر توجہ دیں۔ کیونکہ اگر آپ میڈیا پر ہونے والی تنقید کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا اپوزیشن بیس فیصد تنقید حکومت کے کام پر اور 80 فیصد آپ کے عہدے داروں کے بیانات پر کر رہی ہے اور عوام کی نظر میں آپ کی حکومت کا مقام گر رہا ہے اور اس کے 80 فیصد قصور وار آپ کے حکومتی عہدے دار ہیں۔باقی جہاں تک حکومت کے کنٹرول اور مہنگائی کا تعلق ہے اس کی قصور وار آپ کی حکومت کی جلد بازی ہے۔ آپ وہ نتائج 100 دن کی بجائے پانچ سال میں بھی لے آئیں تو شاید لوگ آپ کو اپنا مسیحا سمجھ لیں اور مہنگائی کے حوالے سے آپ نے قوم کو کتنا اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے وہ مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں۔ اس قوم کو مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کو ضرورت ہے توایک قابل‘ بااعتماد اور پُراعتماد لیڈر کی جو یہ قوم آپ کی کل میں دیکھ رہی ہے۔ لیکن آپ کے غلط اور جلد بازی کے فیصلوں سے ایک مایوسی کی لہر جنم لے رہی ہے جسے یقیناً آپ ہی ختم کرسکتے ہیں۔