ٹوکیوکانفرنس کی سفارشات
حال ہی میں جاپان کے دارالخلافہ ٹوکیو میں ایک اعلیٰ سطح کی کانفرنس منعقد ہوئی،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی اس کانفرنس میںدہشتگردی سے متاثرہ افراد کی بحالی کےلئے قوانین اور سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔کانفرنس میں دنیا کے مختلف ممالک کے اعلیٰ پائے کے بارہ ماہرین شامل تھے، پاکستان کی نمائندگی سینئر پولیس آفیسر ڈاکٹر اطہر وحید نے کی جنہوں نے ہالینڈسے وکٹا مائزیشن )جرائم یا دہشت گردی کے متاثرین( کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔
دہشتگردی یقیناً آج ایک عالمی مسئلہ ہے اوراس عفریت سے دنیا کا کوئی بھی کونا محفوظ نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے جنگ اور دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر آتاہے جس کے ساٹھ سے ستر ہزار شہری اور آٹھ سے دس ہزار فوجی ‘سیکورٹی ‘پولیس اور قانون نافذ کر نے والے اہلکار وطن کے تحفظ کی اس جنگ میںابتک جام شہادت نوش کرچکے ہیں جو دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی عالمی جنگ میں قربانیاں پیش کرنے والے کسی بھی ملک کی سب سے بڑی قربانی ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ سرمایہ کاری رک جانے کے باعث غربت اور بیماریوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر اطہر وحید نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر یہ توقع ظاہر کی ہے کہ اقوام عالم پاکستا ن کی ان قربانیوںکی تحسین کے ساتھ ساتھ متاثرین کی بحالی کےلئے بھی مطلوبہ اقدامات اٹھائے گی تا کہ پاکستان عالمی برادری کی حمایت سے اس عفریت کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکے جو بد قسمتی سے ابتک پاکستان ،افغانستان ،عراق ،شام ،لیبیا اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جان لے چکی ہے۔جب سے یہ دنیا مرضی وجود میں آئی ہے اشرف المخلوقات کا خطاب پانے والے انسان کا قتلِ عام ‘دوسرے انسانوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ رہاہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی تہذیب و ثقافت نے ترقی ضرور کی ہے تاہم انسانی فطرت، سرشت اور جبلت میں آج بھی کوئی جوہری تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔جنگ عظیم اول ہو یا دوئم یا اس سے پہلے کی مختلف انسانی جنگیں‘ ہر جگہ انسانی خون ہی بہا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ ان جنگوں کے ذمہ دار لوگ ‘اپنے اس قبیح عمل کےلئے کوئی نہ کوئی جواز بھی تراش لیتے ہیں۔
حالیہ سالوں میں دہشت گردی ایک ایسے عفریت کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے جس نے ہزاروں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جان لے لی ہے انسانی خون کی ارزانی کے یہ سلسلے ماضی میں فلسطین اور کشمیر تک پھیلے ہوئے تھے جبکہ گزشتہ دو عشروں کے دوران افغانستان، پاکستان ،عراق ،شام، لیبیا اوریمن میں لاکھوں لوگ اس بے مقصد جنگ میں اب تک مارے جاچکے ہیں، جبکہ زندہ بچ جانے والے لوگوں کی زندگی بھی موت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ معذور ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بچّے یتیم اور عورتیں بیوہ ہیں جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے جبکہ انفراسٹرکچر کی شکست و ریخت اور متاثرہ ممالک کی اقتصادی زبوں حالی اس کے علاوہ ہے جن کی بحالی کیلئے کئی عشرے اور بے شمار وسائل درکار ہیں۔
مذکورہ ٹوکیو کانفرنس کی افادیت اس لیے مسلمہ ہے کیونکہ اس میں ایسی سفارشات مرتب کی گئی ہیںجن سے نہ صرف دہشت گردی کے واقعات کو روکنا مقصودہے بلکہ متاثرہ افراد کی بحالی بھی کانفرنس کا اہم ہدف ہے۔ جنگ و جدل کےلئے وسائل کی فراہمی عالمی طاقتوں کی اولین ترجیح رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں تعمیری کاموں کےلئے اپنا حصہ ڈالنا ایک مشکل کام ہے لیکن اگر اپنے دعووں کے مطابق ترقی یافتہ اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی قوموں نے قانون کی سربلندی اور انسانی حقو ق کے تحفظ کے اپنے نعروں کی سچائی کو ثابت کرنا ہے تو پھر انہیں سب سے پہلے دنیا بھر میںدہشت گردی کے نتیجے میں موجود لاکھوں کروڑوںمتاثرین کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ آج بھی پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی میزبانی پاکستان کئی عشروں سے اپنے وسائل سے کر رہا ہے جبکہ لیبیا ،عراق اور شام کے ہزاروں لاکھوں پناہ گزینوں کی حالت زار بھی دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے جن کی مدد کےلئے عالمی طاقتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔
پاکستانی قوم، مسلح افواج،سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی قربانیوں کی بدولت آج کا پاکستان ماضی کے پاکستان سے زیادہ محفوظ اور پرامن ہے، آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد آپریشن ردالفساد نے ارضِ پاک سے فساد کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فساد زدہ علاقوں میں سویلین ادارے بھی استحکام پکڑ رہے ہیں، جبکہ فاٹا کو کے پی کے میں شامل کر کے ریاست پاکستان نے درست سمت میں ایک صحیح قدم اٹھایا ہے۔
زندہ جذبوں کی امین پاکستانی قوم اسی طرح آگے بڑھتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی دہشتگردی جیسی لعنت پر نہ صرف قابو پا سکے گا بلکہ ٹوکیو کانفرنس کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے جنگ اور دہشتگردی سے متاثرین کی بحالی کیلئے پاکستان کے اندر اور دیگر ممالک میں بھی اپنا عالمی کردار ادا کرسکے گا۔