دھرنے اور حکومتی حکمت عملی
وزیراعظم کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے سوشل میڈیا پر ٹوئیٹ میں عمران خان کی تقریر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”تقریر کے تین دن بعد ہی حکومت مطالبات کے سامنے جھک گئی اور آسیہ مسیح کے پاکستان سے باہر نہ جانے کے مطالبے کو تسلیم کر لیا جو کہ اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف ہے“۔ جمائمہ دراصل توہین رسالت کی مرتکب آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے رہائی کے احکامات پر علماءکی طرف سے چلائی جانے والی تحریک جو بڑے زور و شور سے شروع ہو کر تین روز کے اندر حکومتی حکمت عملی اور بغیر کسی خون خرابے کے نتیجہ میں انجام پذیر ہو گئی۔ جمائما زمینی حقائق سے بے خبر تھی کیونکہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد واقعات جس تیزی اور ترتیب سے ظہور پذیر ہوئے اگر وہ جان لیتیں تو شاید وہ اپنی رائے بدل لیتی۔ سپریم کورٹ کے اردو میں لکھے گئے فیصلے کو پڑھے بغیر بعض لوگوں نے مذہب اور حُبِ رسول کا استحصال کرتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔ سڑکیں‘ ریل اور فضائی راستے معطل کر دئیے گئے اور جن لوگوں نے اس دھرنے کے رہنما¶ں کی تقریریں سنیں یا ان کے رویے کو دیکھا وہ اس بات کی ضرور تائید کریں گے کہ اگر حکومت ہوش مندی کی بجائے طاقت استعمال کرتی تو خدانخواستہ بہت خون خرابہ ہو سکتا تھا۔ حکومت کو آئے ابھی اڑھائی ماہ ہوئے ہیں‘ جمائما جیسی ہوشمند خاتون کے منہ سے مایوسی کے کلمات اچھے نہیں لگے۔ آسیہ مسیح کے مسئلے پر بغاوت نما دھرنے سے خون کا قطرہ بہائے بغیر اور دھرنے والوں کو کوئی رعایت دئیے بغیر نمٹ لینا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اسی طرح آسیہ مسیح کی آزادی اور انسانی حقوق بھی متاثر نہیں ہونگے۔ اسے وہ سب کچھ ملے گا جو پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے اس کا حق ہے۔
ملک بھر میں دھرنوں کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے شرپسندوں کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں جو املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں۔ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ شرپسند افراد کی شناخت کےلئے پولیس اور ایف آئی اے سے بھرپور معاونت کریں۔ میرے خیال میں یہ دھرنا انتہائی خوفناک ہو سکتا تھا اگر وزیراعظم‘ آرمی چیف سے باہمی مشاورت سے قوم سے خطاب کے دوران واضح میسج نہ دیتے اور یہ واضح پیغام اس لئے بھی بہت ضروری تھا کہ وزیراعظم پاکستان چین کا پانچ روزہ دورہ شروع کرنے جا رہے تھے۔ دھرنے والوں کے دھرنے کا وقت اور چین کے دورے کا ٹائم شاید محض اتفاق ہو سکتا ہے ۔ نتائج کا اعلان تو وزیراعظم اپنے قوم سے خطاب میں کریں گے کہ انہوں نے اس دورے میں کتنا کچھ ملک کے لئے حاصل کیا ہے؟ اگر یہ دھرنا ایسے وقت میں نہ ہوتا تو ملک کے لئے بہت بہتر ہوتا۔ وزیراعظم نے دھرنے شروع ہونے پر جو قوم سے خطاب کیا اسے قومی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی‘ اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا مگر تین دن خاموشی کی حکمت عملی میں حکومتی بے بسی بھی شامل ہو گئی۔ جب پولیس کی طرف سے چند سوالات اُٹھائے گئے تو حکومتی اوسان خطا ہو ئے۔ رینجرز کی جانب سے بھرپور تیاری پر دھرنے والوں کے اوسان خطا ہو گئے تووہ خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے۔ دھرنے والوں کو بھی سوچنے سمجھنے کی توفیق ہوتی کہ عدالتی جنگ ابھی نظرثانی اپیل کی صورت میں موجود ہے اور سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پہرہ دینے والوں نے سپریم کورٹ میں جاری قانونی جنگ کے وقت کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی؟ کیس کی پیروی‘ دلائل و گواہان کے لئے یہ علماءکیوں چپ رہے؟ اگرہمارے جید علماءجاگ رہے ہوتے تو بے گناہ شہریوں کے موٹر سائیکل نہ جلائے جاتے۔ بیچارے مزدور‘ ٹرک اور بس ڈرائیوروں کو کس قانون اور کس شریعت کے تحت سزا دی گئی۔
اچھا ہوا معاہدہ ہو گیا‘ معذرت بھی ہو گئی لیکن یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ براہ راست آئین کی خلاف ورزی‘ قومی سلامتی پر کھلم کھلا بغاوت کے الزامات غداری پر منتج ہوں گے۔ ان کا کیا بنے گا؟ یہی امن و آشتی اور برداشت کی حکمت عملی جاری رہی تو پھر ریاست اگلے دھرنے کے لئے تیار رہے۔ کہنے والے تو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اُسی سوچ کی آبیاری ہے جس کا مقصد پاکستان کو لیبیا‘ عراق‘ شام اور یمن بنانا ہے۔ فوج کو ہر مسئلے میں گھسیٹنا اور اسے متنازعہ بنانا ہی دراصل مدعا اور مقصد ہے۔ نواز شریف کی حکومت آئے تو فوج ذمہ دار‘ نواز شریف نااہل ہو جائے تو فوج کو ملوث کرنا‘ نواز شریف پر کیس چلیں تو فوج ذمہ دار‘ عمران خان بیس سالہ جدوجہد کے بعد محض سادہ اکثریت سے برسرِ اقتدار آ جائے تو فوج کی شامت آ جاتی ہے۔ یہ غیر ملکی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے محب وطن عناصر کا ایجنڈا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ دھرنے کے آخر میں پھر رہی سہی کسر تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری کی پریس کانفرنس نے پوری کر دی کہ حکومت اور حساس اداروں (فوج) نے گارنٹی دی ہے کہ آسیہ مسیح کی سزا بحال کرائیں گے۔ اسی ایک جملے نے آنے والے دنوں کی حساسیت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ دھرنے کے اختتام پر ایک خوبصورت اور معنی خیز بات سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی تھی کہ جن علاقوں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے یا جن علاقوں میں مسلم لیگ ن کو عوامی حمایت حاصل ہے انہی علاقوں میں گھیرا¶ جلا¶ زیادہ ہوا اور اس میں مبینہ طور پر اسی جماعت کے کارکنوں نے بھرپور حصہ لیا جبکہ جنوبی پنجاب میں ان ہنگاموں اور دھرنوں کی شدت نہیں تھی جتنی ان علاقوں میں آگ پھیلائی گئی اور یہ بات قابل غور ہے۔
جس طرح تین روزہ دھرنے اور گھیرا¶ جلا¶ میں ملوث کارکنان یا ”ففتھ کالمسٹ“ گرفتار ہوئے ہیں اور ٹی وی‘ سوشل میڈیا کے ذریعے وہ چہرے سامنے آئے ہیں ان سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ قائدین تحریک لبیک کے ٹوئٹر اکا¶نٹ بند کئے گئے ہیں اور دیگر فیس بک اکا¶نٹس کو بند کیا جا رہا ہے اس سے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد بند ہو جائے گا اور مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد مل سکے گی۔ خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف راست اقدام اٹھانے کے ساتھ جن کا نقصان ہوا ہے اسے بھی پورا کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے۔ تحریک کے قائدین نے بھی اپنے مطالبہ میں یہ بات دہرائی ہے کہ گھیرا¶‘ جلا¶ کرنے والے عناصر کی شناخت ظاہر کی جائے تاکہ پاکستانیوں کو یہ واضح ہو سکے کہ دراصل وہ کارکن کس جماعت کے تھے اور ان جلوسوں میں شامل ہو کر کس ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔ حکومت پورے مسئلہ پرخصوصی توجہ مرکوز رکھے کیونکہ قوم کو آپ سے بہت اُمیدیں وابستہ ہیں۔