پاکستان کے وزیراعظم عمران خان دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ این آر او کے بارے میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں نے وزیراعظم کے بیان کی تردید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جس نے ان سے این آر او کے لئے رابطہ کیا ہے اسے بے نقاب کیا جائے۔ پاکستان کی سیاست میں این آر او کی روایت جنرل پرویز مشرف نے ڈالی تھی۔ 2002ءکے انتخابات کے بعد کنگ پارٹی مسلم لیگ (ق) کو حکومت بنانے کے لئے پی پی پی کے ایک درجن اراکین قومی اسمبلی کی وفاداری تبدیل کرانے کے لئے ان کے خلاف نیب مقدمات بند کر دئیے گئے۔ جنرل مشرف کی اقتدار کے لئے یہ پہلی مفاہمت تھیں آمر نے دوسری مفاہمت امریکہ کے ساتھ کی اور نائن الیون کے بعد اس کی بات شرائط مان لیں جو قومی مفاد کے خلاف اپنے ذاتی اقتدار کے لئے تھیں جنرل پرویزمشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او ) جاری کیا اور سیاست دانوں کے خلاف تمام مقدمات کالعدم قرار دے دئیے۔ یہ این آر او بھی اس شرط پرجاری کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کو مزید پانچ سال کے لئے پاکستان کا صدر منتخب کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ءکو این آر او منسوخ کر دیا۔ جنرل مشرف آمر صدر تھے اور طاقت کا واحد مرکز تھے۔ این آر او جاری کر سکتے تھے۔ موجودہ حالات میں طاقت کے تین مراکز ہیں۔ ایگزیکٹو عدلیہ اور پاک فوج کا این آر او پر متفق ہونا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے دلیر ترین چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ان کی عدالت میں جو مقدمات زیر سماعت ہیں۔ وہ ان کو اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے منتقی انجام تک پہنچائیں گے۔ کور کمانڈر کانفرنس نے اپنے حالیہ اجلاس کے بعد جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں اس عزم کو دہرایا گیا ہے کہ ریاست کورٹ کو یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی کے لئے اداروں کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ ان حالات میںکرپٹ افراد کے لئے اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق احتساب کے شکنجے سے باہر نکلنا ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز ”سیاسی خاموشی“ اختیار کر کے سازگار حالات کا انتظار کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کا ہنی مون پریڈ چھ ماہ میں پورا ہو جائے گا۔ چیف جسٹس پاکستان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ریاستی سٹرکچر کمزور پڑ جائے گا اور شریف خاندان اور زرداری خاندان کے لئے آبرو مندانہ راہیں تلاش کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ عوام کی دلی آرزو ہے کہ قومی لٹیروں کو عبرت ناک مثال بنا دیا جائے مگر فی الحال یہ آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ قومی لٹیرے ریاست اور عوام سے زیادہ طاقتور بن چکے ہیں۔ ان کے پاس ریاست سے زیادہ دولت ہے ان کے پاس عوامی اور پارلیمانی طاقت ہے۔
کرپشن کا کینسر اوپر سے نیچے تک پھیل چکا ہے۔ عدل و انصاف کا نظام کمزور ہے۔ قومی لٹیرے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔ پاکستان کے محب وطن سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں کہ ریاست کے مستقبل اور قومی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ احتساب کا مسئلہ محدود مدت میں حل کر دیا جائے تاکہ ریاست جمود سے باہر نکل سکے۔ ایسا حل تلاش کیا جائے جس کے نتیجے میں لوٹی ہوئی قومی دولت خزانے میں جمع ہو سکے اور میگا کرپشن میں ملوث افراد سیاست میں حصہ لینے سے تاحیات نااہل قرار پائیں۔ احتساب کے متاثرین میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر شامل ہیں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے۔ تینوں پارلیمانی جماعتیں ایسے پارلیمانی فارمولے پر متفق ہو سکتی ہیں جو ریاست اور عوام کے مفاد میں ہو اور جس سے وزیراعظم عمران خان کو فیس سیونگ مل سکے۔
احتسابی عمل کے طول پکڑنے سے ریاست کا وقت اور سرمایہ ضائع ہو گا۔ انتشار اور فساد بڑھے گا۔ عوام میں مایوسی پیدا ہو گی۔ حکومت اصل قومی مسائل پر توجہ نہیں دے سکے گی۔ عدالتیں بھی کرپشن مقدمات میں الجھی رہیں گی عام شہری انصاف کے لئے ترستے رہیں گے۔ پارلیمنٹ عوام کا منتخب ریاست کا بالادست ادارہ ہے اس کا آئینی اور جمہوری فرض ہے کہ ریاست کو بحران سے باہر نکالے۔ کرپشن سکینڈلز کی داستانیں سن سن کر عوام کے کان پک اور دماغ تھک چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اہل اور نیک نام اراکین مشاورت سے ایسے آئینی فارمولے پر اتفاق رائے کرائیں جس سے لوٹی گئی دولت واپس آسکے۔ قومی دولت لوٹنے والے تاحیات نااہل قرار پائیں اور کرپشن میں ملوث ہونے والے معاشی دہشت گردوں کے لئے آئندہ سزائے موت مقرر کی جائے تاکہ پارلیمانی فارمولے کے ذریعے پرانے مقدمات ختم ہو جائیں اور سزائے موت کے خوف سے مستقبل میں کرپشن اور بدعنوانی کے مواقع کم سے کم ہو جائیں۔
اگر پارلیمنٹ کرپشن اور ا حتساب کا بڑھتا ہوا خطرناک بحران حل کرنے میں ناکام رہی تو جمہوری سسٹم عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ عوام جمہوری نظام سے ہی بددل ہو جائیں گے اور حسب روایت غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
تحریک انصاف کی حکومت عددی اعتبار سے کمزور ہے وہ بااثر کرپٹ مافیا سے ٹکرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ اس پر اندرونی اور بیرونی دبا¶ بڑھتا جائے گا لہٰذا وہ مزید کمزور ہونے سے پہلے احتساب کا فوری حل نکالے تاکہ عمران خان سکون کے ساتھ آئینی مدت پوری کر سکیں اور تبدیلی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کر سکیں۔ عمران خان نیلسن منڈیلا فارمولا ”مفاہمتی سچائی کمشن“ سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے اعتدال کے اصول پر قومی عوامی اور آئینی حل نکالنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
منی لانڈرنگ، کرپشن اور بے ضابطگیوں کے مقدمات جس رفتار اور تعداد سے سامنے آرہے ہیں عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے پاس ان کو مناسب وقت میں نمٹانے کی استعداد اور اہلیت ہی نہیں ۔ احتساب کے نام پر قوم سے مذاق اب بند ہونا چاہئے۔ غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے غیر معمولی خصوصی قوانین کی ضرورت ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے بلکہ احتسابی عمل میں رکاوٹ بن جائے تو ایسی بے سود اور بے حس پارلیمنٹ قومی خزانے پر بوجھ ہی ہو گی۔
پاکستان کے قومی مسائل پر سنجیدہ غور و فکر کرنے والے دانشور سابق ایڈیشنل ڈی جی آئی بی میجر (ر) شبیر احمد کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ نہیں دی لہٰذا ہم معیاری افراد پیدا نہ کر سکے اور غیر معیاری افراد کی وجہ سے ریاستی ادارے اور شعبے انحطاط پذیر رہے اب بھی وقت ہے کہ حکومت پرائمری تعلیم کو پہلی ترجیح بنائے۔ پرائمری سکولوں کے نصاب کو اس انداز سے مرتب کیا جائے کہ بچوں کی تربیت اخلاقی بنیادوں پر ہو سکے تاکہ جب وہ نوجوان ہو کر ریاست کے مناصب پر فائز ہوں تو وہ حب الوطنی کے جذبے سے ریاست کی ترقی اور خوشحالی کے لئے مثبت کردار ادا کر سکیں۔ پرائمری سکولوں میں علم اور عمل کے حامل اساتذہ کو تعینات کیا جائے کیونکہ اچھا استاد ہی اچھے شہری پیدا کر سکتا ہے اور اچھے شہری ہی اچھی حکومت فراہم کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر ارشاد حسن خان کی صائب رائے کے مطابق پارلیمنٹ ریاست کا سپریم ادارہ ہے جس پر عوام کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عوام اس سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے ریاست کی گورننس کو معیاری اور فعال بنانے کے لئے آئینی فرض پورا کریں گے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو الزام تراشی کی سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے قومی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ فوری شفاف اور کڑے احتساب اور انصاف کے لئے خصوصی قانون سازی کی جائے تاکہ جاری احتسابی عمل جلد از جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے اور ریاستی ادارے لانگ ٹرم قومی ایشوز پر توجہ دے سکیں
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024