امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس نے ایشیا پیسیفک سمٹ کے حاشیے میں خاتون لیڈر کے ساتھ ملاقات میں میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی پر واضح کیا کہ ا±نکے ملک میں روہن گیا اقلیت پر کیا گیا ظلم و جبر ناقابلِ معافی ہے۔ اسکے جواب میں سوچی نے واضح کیا کہ ظلم و ستم کے حوالے سے متضاد عوامی آراءپائی جاتی ہیں۔ پنس نے اس ملاقات میں یہ بھی کہا کہ امریکہ روہن گیا اقلیت کےخلاف کیے جانے والے مبینہ فوجی آپریشن میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کے بارے میں جلد از جلد کوئی پیش رفت جاننا چاہتا ہے۔ اسکے علاوہ امریکی نائب صدر نے میانمار میں آزاد اور جمہوری صحافت کیلئے سازگار ماحول کو بھی اہم قرار دیا۔
مادی وسائل میں ترقی اور جنگی ہتھیاروں میں جدیدت کے ساتھ ساتھ امریکہ دنیا بھر پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگا اور اس کیلئے اس نے تباہ کن اسلحے کی تیاری پر توجہ مرکوز کرلی، بدقسمتی سے دوسری جنگِ عظیم سے کچھ عرصہ قبل جرمن سائنس دانوں نے ایٹم بم ایجاد کرلیا جس کو امریکی جاسوسوں نے چوری کرکے اپنے سائنس دانوں کے حوالے کردیا اور انہوں نے اس تباہ کن بم کو جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر استعمال کرکے جنگ کا خاتمہ کیا، اس بم کی تباہ کاریاں دیکھ کر پوری دنیا توبہ توبہ کرنے پر مجبور ہوگئی، امریکہ کے پوری دنیا پر حکومت کے خواب کی تعبیر کے حصول میں اگر کوئی رکاوٹ تھی تو سوویت یونین تھا جو ہر اعتبار سے امریکہ کی ٹکر کا تھا یہی وجہ تھی کہ امریکہ اور روس دونوں ایک دوسرے کے خوف کی وجہ سے کنٹرول سے باہر نہ ہوسکے لیکن انکے سائنس دان جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف رہے۔ علاوہ ازیں جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے ساتھ امریکہ اور رو س عالمی سطح پر اپنا گروپ بنانے میں بھی مصروف رہے ان دونوں کی کوشش تھی کہ وہ دنیا میں دوسرے ملک سے زیادہ تعلقات پیدا کرنے میں اور اپنے گروپ میں دوسرے سے زیادہ ممالک کو شامل کرلے، اس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں کچھ امریکی لابی میں ہوگئے اور کچھ روسی لابی میں، لیکن پھر روس کی افغانستان میں فوجیں داخل کردینے کی حماقت سے امریکہ کو سنہری موقع ملا اور اس نے پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان سے روسی فوجوں کو نکال دیا اور پھر دنیا کی سیاست یا حقیقی معنوں میں شورش کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا، اس دوران اپنی سازشوں کو مکمل کرنے کیلئے امریکہ نے نائن الیون کا ڈرامہ سٹیج کردیا پھر دنیا بھر میں دہشتگردی کےخلاف پیدا ہونےوالے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عالمی فوج تیار کی اور افغانستان، عراق، لیبیا سمیت بہت سے ملکوں کے خلاف طاقت کا استعمال شروع کردیا، ان میں زیادہ تر وہ ملک تھے جو روسی لابی میں شامل تھے یا امریکی لابی میں شامل نہیں تھے، ایسے اقدامات سے دنیا بھر میں انتشار پھیل گیا اور نئی ملک خانہ جنگی میں الجھ گئے جہاں درحقیقت یہی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کےخلاف برسرپیکار تھیں لیکن تباہی اور موت کا شکار اس ملک کے عوام ہورہے تھے جہاں یہ لڑائی جاری تھی ان میں شام، یمن، لیبیا، افغانستان اور عراق سمیت دیگر بہت سے ملک بھی شامل ہیں۔
ان حالات میں دنیا کے دیگر ممالک نے بھی انسانیت سے گرتے ہوئے ایسی ظالمانہ کارروائیاں شروع کردیں جن میں کوئی ایک گروہ دین، مذہب، لسانی یا قومی اختلاف کی بنیاد پر ظلم و تشدد کا شکار بنائے گئے ان میں خاص طور پر تو کشمیری اور فلسطینی عوام شامل ہیں جبکہ انکے بعد افریقی، بنگالی اور برمی مسلمان جبکہ بھارت میں نچلی ذات کے ہنود بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں دو عالمی سپر طاقتوں سمیت تمام ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک انسانی حقوق کی باتیں اور دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے کہ فلسطینی اور کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا لیکن اس دوران برما میں جو خونی کھیل کھیلا گیا کہ روہن گیائی مسلمانوں کو گھیرکر فوجوں کی مدد سے ایسے ظالمانہ انداز میں شہید کیا گیا جس پر انسانیت آج تک ماتم کر رہی ہے اور اس تمام قتل و غارت کی ذمہ داری وہاں کی لیڈر آنگ سان سوچی پر عائد ہوتی ہے، جس کے بارے میں امریکہ کے نائب صدر نے کہا ہے کہ ا±نکے ملک میں روہن گیا اقلیت پر کیا گیا ظلم و جبر ناقابلِ معافی ہے، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ جملہ قابل ستائش ہے لیکن یہاں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ کاش امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس ایسے ہی خیالات کا اظہار اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کیلئے بھی کردیتے، کیونکہ امریکی مظالم آنگ سان سوچی کے مظالم سے کہیں زیادہ ہیں اور امریکہ نے برمی حکومت سے کہیں زیادہ افراد کا خون بہایا ہے اور خون بہانے کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، حالانکہ عالمی برادری یہ سب جانتی ہے لیکن ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر کوئی امریکی پالیسی کا کاسہ لیس بنا ہوا ہے اور پاکستان بھی انہیں میں شامل ہے کہ ہم امریکی سازشوں کو سمجھنے کے باوجود ان کا پردہ چاک کرنے کے بجائے اب بھی کاسہ لیسی میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے لگے ہیں کہ اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے حاصل بھی نہیں کرسکتے، ہم اپنے ہمسایہ افغانستان سے امریکی فوجوں کو نہیں نکال سکتے ، ہم مقبوضہ کشمیر میں اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارتی فوجی درندوں کے مظالم سے بچانے کےلئے کچھ نہیں کرسکتے،ہم فلسطینیوں کو اسرائیلی شیطنت سے بچانے کے بجائے خاموش ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ خاموشی کب ٹوٹے گی اور ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ اب امریکی قیادت کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے اور وہ صراط مستقیم پر آنا چاہتی ہے یا امریکی نائب صدر نے منافقت سے کام لیتے ہوئے اپنے کسی مفاد کی خاطر آنگ سان سوچی کو دھمکی دے دی ہے، کیونکہ گذشتہ روز ہی امریکی کانگریس کے پینل نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو قومی سلامتی اور فوجی بحران کا سامنا ہے، روس اور چین سے جنگ ہوئی تو شکست ہوسکتی ہے۔امریکی صدر کی دفاعی حکمت عملی پر غور کرنے والی نیشنل ڈیفنس اسٹریٹجی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس امریکی دفاعی قوت کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت بڑھا رہے ہیں جبکہ امریکی فوج کی عالمی بالادستی خطرناک حد تک زوال کا شکار ہے، اس کی وجوہات دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے فیصلے اور 2011ءکے بجٹ کنٹرول اقدامات ہیں۔
امریکی فوج ایشیا اور یورپ میں اثرورسوخ کھو رہی ہے، فوجی طاقت کا توازن بگڑنے کی صورت میں تصادم کے خطرات بڑھ گئے ہیں، ان حالات میں کسی بڑی لڑائی کی صورت میں امریکی فوج کو بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑسکتاہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج کو رواں سال کا بجٹ 70 ارب ڈالر ہے یہ روس اور چین کے مشترکہ فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہونے کے باوجود این ڈی ایس کے طے شدہ مقاصد کے حصول کیلئے ناکافی ہے، امریکی فوج کے بجٹ میں سالانہ 3 سے 5 فیصد اضافہ کیاجائے۔ اس کا فیصلہ آپ کرسکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024