ہفتہ‘ 8 ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 17 نومبر2018ء
ٹانک: بھٹہ مزدور 27 گاڑیوں کا مالک نکل آیا، ایف بی آر نے 90 لاکھ ٹیکس کا نوٹس بھیج دیا
اُردو میں دو محاورے ایسے موقعوں پر بولے جاتے ہیں، جب بیٹھے بٹھائے کسی کو ڈھیروں دولت مل جائے، پہلا ”جب وہ دیتا ہے چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے“ اور دوسری کہاوت ہے” ہُن (پیسہ) بارش کی طرح برس رہا ہے۔“ ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہو لیکن اب مدت سے ایسا منظر دیکھنے میں نہیں آیا۔ کبھی کبھار مغرب سے کسی غریب مزدور یا ٹرک ڈرائیور کی کروڑوں کی لاٹری نکلنے کی خبر آتی تو ہے مگر ساتھ ہی بتایا جاتا ہے کہ جس غریب کی لاٹری نکلی وہ خبر سُنتے ہی مارے خوشی کے پاگل یا راہی¿ ملک عدم ہو گیا۔ ان دنوں وطن عزیزمیں بھی تاریخ (یعنی جب یہ محاورے وضع ہوئے) اپنے آپ کودہرانے لگی ہے، گزشتہ کچھ عرصہ سے فالودے والے، رکشے والے اور ریڑھی والے، رات کو مزدور ہوئے، صبح اُٹھے تو ارب پتی تھے۔ حتیٰ کہ بعض ایسے بھی غریب تھے کہ جنہیں مرنے کے بعد اہل محلہ نے چندہ جمع کر کے کفن دفن کا انتظام کیا اورجو زندگی میں جس بنک کے سامنے کھڑے ہو کر بھیک مانگا کرتے تھے ، اُسی میں اُنکے نام پر اکاﺅنٹ پایا گیا جس میں اربوں روپے رکھے گئے تھے۔ اسی طرح کئی ایک ایسے لوگ درجنوں لگژری گاڑیوں کے مالک پائے گئے،جنہیں عمر بھر سائیکل بھی نصیب نہیں ہوا۔ ٹانک کا 27 سالہ بھٹہ مزدور بشیر احمد بھی ایسے ”خوش قسمت“ افراد کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے۔ ایف بی آر نے اُسے 89 لاکھ 24 ہزار 375 روپے کا ٹیکس نوٹس دے دیا ہے۔ یہ الگ بات کہ غریب اس رقم کے آخری 375 روپے دینے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ 24 ہزار یا 89 لاکھ تو دور کی بات۔ بہتر یہ ہے کہ بشیر احمد، 27 کی 27 گاڑیاں ایف بی آر کو دےدے بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب کا کام یہ ہے کہ ڈیمز فنڈز میں جمع کرادے۔ ایک قاری نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ خبر لی جائے کہ بشیر احمد کہیں مارے خوشی کے پاگل تو نہیں ہو گیا۔ غالب مرحوم یاد آ گئے....ع خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
٭٭٭٭
پاکستان کے پہلے بصارت سے محروم سول جج یوسف سلیم باقاعدہ ڈیوٹی پرتعینات
یوسف سلیم عزم و ہمت کی منفرد داستان ہیں، انہوں نے بڑے شوق سے قانون کی تعلیم حاصل کی، مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے، ٹاپ کیا۔ لیکن اُنہیں سول ججی کا اس لئے اہل نہ سمجھا گیا کہ وہ نابینا تھے، وہ توسپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ہدایت پر اُنہیں یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ دراصل ظاہر پرست لوگ بصیرت اور بصارت میں فرق نہیں کرتے۔ بصیرت سے بے بہرہ لوگ صرف اپنے آگے اور سامنے کی چیزیں ہی دیکھ سکتے ہیں جبکہ صاحب بصیرت لوگوں میں غیر معمولی فہم و فراست کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ وہ شخص جس نے بی اے ،ایم اے کیا قانون کی تعلیم پائی، ہزاروں نوجوانوں کے مقابلے میں اول آیا، اُسے نابینا کہنا کسی طور بھی درست نہیں۔ نابینا لوگ جنہوں نے شہرت پائی، اُن کی فہرست بڑی طویل ہے۔ گزشتہ صدی میں مصر کے وزیر تعلیم ڈاکٹر طہٰ حسین نابیناتھے۔ اُنہوں نے پیرس سے پی ایچ ڈی کیا۔ اُن کی عربی کی تصانیف کے اُردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ اُن کی خودنوشت ”حیاتی“ (میری زندگی) انتہائی دلچسپ کتاب ہے۔یورپ اور امریکہ کے نامور مستشرق، عربی زبان و ادب اور اسلام کے بارے میں اُن سے رجوع کرتے تھے۔ عربی کے ایک ا ور شاعر ابوالعلیٰ معریٰ بھی نابینا تھا۔ علامہ اقبالؒ مرحوم کا مشہور شعر جس کا ایک مصرع ”ہے جرم ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات “ مصری کے افکار سے ماخوذ ہے۔ مشہور یونانی شاعر ہومر بھی نابینا تھا اور تو اور ممتاز صحابی حضرت عبداللہ بن مکتومؓ بھی نابینا تھے جنکی شان میں سورہ¿ العبس نازل ہوئی۔
٭٭٭٭
اوکاڑہ: پولیس بھرتی کےلئے دوڑ‘ ٹیسٹ کے دوران نوجوان اُمیدوار ہارٹ اٹیک سے جاں بحق
اسی طرح گوجرانوالہ پولیس میں کانسٹیبلوں کی سو آسامیوں کیلئے لڑکوں کی دوڑ میں بھی کئی اُمیدوار راستے میں ہی گر پڑے۔ خواتین کی دوڑ میںکچھ تو راستے میں ہی تھک ہار کر بیٹھ گئیں ،دس منٹ کی دوڑ کے دوران دو خواتین بے ہوش ہو گئیں ۔ فوج اور پولیس کی زندگی بڑی سخت ہے بلکہ فوج کی سخت زندگی کے مقابلے میں پولیس کی مصروفیات تو کچھ بھی نہیں۔ بھرتی کیلئے دوڑ پہلا مرحلہ ہے۔ ٹیسٹوں کے دوران آگے چل کر کئی سخت اور دشوار مقامات آتے ہیں جو پہلے مرحلے پر ہی تھک ہار کر بیٹھ گئے یا گر گئے، وہ آگے چل کر کیا کر یں گے۔ پولیس میں بھرتی کے حوالے سے تصور یہی ہے کہ اس کا ٹیسٹ ”اوکھا“ ہوتا ہے۔ پھر زندگی بھر کا عیش ہے۔ اگرچہ یہ تصور غلط ہے لیکن پولیس سے جس چستی و چالاکی اوربھاگ دوڑ کی توقع رکھی جاتی ہے وہ بہت کم مواقع پر پوری ہوئی ہے۔ چند سال کی سروس کے بعد ان کی توندیں نکل آتی ہیںجو اُن کی بسیار خوری ، کاہلی اور سستی پر دلالت کرتی ہیں۔ فرض شناسی کا یہ عالم ہے کہ ٹریفک جام ہو تو اُسے رواں کرنے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی گاڑی نکال لے جانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کہیں دوچار لوگ گتھم گتھا نظر آئیں تو بیچ بچاﺅ کرانے کی بجائے آنکھیںچرا کر نکل جاتے ہیں۔ کسی دور میں پولیس اہلکار دوڑ کر بھاگتے ملزموں کو پکڑ لیا کرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُس زمانے میں لوگوںکے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا لیکن جرا¿ت اور فرض شناسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
آگرہ: بندر ماں سے نوزائیدہ بچہ چھین کر فرار‘ بچہ ہلاک ہو گیا
آگرہ‘ مغل شنہشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کی لافانی یادگار ہے‘ تاج محل کی وجہ سے مشہور ہے۔ علاوہ ازیں آگرہ میں بندر بھی کثرت سے ہیں۔ بندروں کو مارنا ہندوﺅں کے نزدیک مہا پاپ ہے اس لئے کہ ہندو بندروں کو اپنے دیوتا ہنومان جی مہاراج کی اولاد قرار دیتے ہیں جنہوں نے سیتا جی کو لنکا کے راجہ راون کے چنگل سے چھڑانے میں راجہ رام چندر کی مدد کی تھی۔ چنانچہ انہیں روکنے ٹوکنے کی کوئی حماقت نہیں کرتا۔ بدقسمت خاتون ورما غروب آفتاب سے قبل اپنے بارہ دن کے بچے کو چھاتی سے دودھ پلا رہی تھی کہ ہنومان جی مہاراج کا ایک سپوت آیا اور بچے کو چھین کر چھتوں سے پھلانگتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ماں کی چیخ و پکار پر اہل محلہ نے بڑی بھاگ دوڑ کی‘ لیکن تب تک بچہ بندر کی اچھل کود کے جھٹکوں کی تاب نہ لاکر دم توڑ چکا تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق بھارتی شہروں میں پانچ کروڑ بندر پائے جاتے ہیں۔ ان میں دس ہزار سے زائد آگرہ میں ہونگے۔ بندر لوگوں کو کاٹ بھی لیتے ہیں۔ 2016ءمیں دارالحکومت دہلی میں 19 سو کے قریب لوگ بندروں کے کاٹنے سے زخمی ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2007ءمیں نئی دہلی کا میئر اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑا تھا کہ بندروں نے اس پر حملہ کر دیا جس پر وہ بالکونی سے سر کے بل گرا اور پرلوک سدھار گیا۔ یہ اس ملک کا حال ہے جس کی سوا ارب کی آبادی میں 80 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو دل میں پیٹ بھر کھانے کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ وہاں بندروں کو ہر قسم کی آسائش حاصل ہے۔
٭٭٭٭