ایس پی پشاور کی میت کی حوالگی سے متعلق افغان طرز عمل پر دفتر خارجہ اور ترجمان پاک فوج کا موقف
ترجمان دفتر خارجہ نے افغانستان میں شہید کئے گئے ایس پی پشاور طاہر داوڑ کی میت کی حوالگی میں افغان حکام کی جانب سے کی گئی تاخیر پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیرسفارتی اور غیرسرکاری افراد کے ذریعے میت حوالگی پر شہید ایس پی کے اہل خانہ کا کرب بڑھا جبکہ ایسے معاملہ پر سفارتی اور انسانی اقدار ملحوظ خاطر رکھی جانی چاہیے تھیں۔ گزشتہ روز اپنے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ محمد فیصل نے افغان حکومت سے اس امر کا تقاضا کیا کہ وہ ان عوامل کا تعین کرنے میں پاکستان کی معاونت کرے جن کی وجہ سے پاکستانی پولیس افسر کو افغانستان میں قتل کیا گیا۔ اسی طرح پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایس پی طاہرداوڑ کے افغانستان میں اغواءاورقتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ طاہر داوڑ کا اسلام آباد سے اغوائ‘ انکی افغانستان منتقلی‘ وہاں قتل اور پھر افغان حکام کا رویہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ انکے بقول اس واردات میں استعمال ہونیوالے وسائل اور مذکورہ سوالات کی وجہ سے دہشت گرد تنظیم سے بڑھ کر یہ کسی اور کا کام لگتا ہے۔ گزشتہ روز اپنے دو ٹویٹس میں انہوں نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہم نے ایک بہادر پولیس افسر کو کھو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس قتل کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں لیکن ہم اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ افغان سکیورٹی حکام اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے روکنے کیلئے آہنی باڑ لگانے میں تعاون کریں۔
دوسری جانب وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے گزشتہ روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 80 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی‘ اسکے باوجود ایس پی طاہر داوڑ کی میت کی حوالگی سے متعلق افغان حکام کا رویہ غیرمناسب اور اذیت ناک تھا۔ انکے بقول میت وصول کرنے کیلئے جانیوالے پاکستانی حکام کو اڑھائی گھنٹے کھڑا رکھا گیا اور پھر کہا گیا کہ ہم پاکستان کو نعش نہیں دینگے۔ افغان حکام کے اس طرز عمل کا مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا تھا اس لئے ریاست پاکستان افغان حکومت سے اس رویے پر بات کریگی۔ ہم ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کی تحقیقات منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ انہوں نے خیبر پی کے حکومت کو اسلام آباد پولیس کے ساتھ مل کر اس معاملہ کی فوری انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر مملکت برائے داخلہ اپنی رپورٹ جلد انہیں پیش کرینگے۔
افغان حکام کی جانب سے ایس پی طاہر داوڑ شہید کی میت کی پاکستانی حکام کو حوالگی کے معاملہ میں جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ اپنی جگہ ایک تشویشناک معاملہ ہے کیونکہ اس سے براہ راست ہماری ریاستی اتھارٹی پر حرف آیا ہے۔ اس معاملہ میں حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے اور افغان حکومت کو باور کرانے کا کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے‘ اس پر بھی پارلیمنٹ میں سنجیدگی کے ساتھ بحث ہونی چاہیے تاہم ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغواءسے افغانستان میں انکے قتل کی اطلاع ملنے تک حکومت نے جس بے نیازی کا مظاہرہ کیا وہ اور بھی تشویشناک معاملہ ہے کیونکہ یہ وفاقی دارالحکومت اور پورے ملک میں سکیورٹی معاملات سے حکومتی بے نیازی کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ ماہ 27 اکتوبر کو ایک انتہائی اہم اور ذمہ دار پولیس افسر دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت کے بارونق علاقے سے اغواءہوئے مگر اسلام آباد کی انتظامیہ کو اسکی کانوں کان خبر نہ ہوسکی اور جب انکے اغواءکا واقعہ سوشل میڈیا پر اجاگر ہوا تو انکی بازیابی کیلئے بھی کسی قسم کا تردد نہ کیا گیا۔ اغواءکنندگان مغوی ایس پی کو پنجاب کے مختلف شہروں میں گھماتے پھراتے بنوں لے گئے مگر کسی بھی مقام پر انکی روک ٹوک ہوئی نہ پوچھ گچھ۔ اسی اغواءکنندگان مغوی پولیس افسر کو لے کر آسانی کے ساتھ افغان سرحد عبور کرگئے مگر سرحد پر بھی انکی پوچھ گچھ کرنیوالا کوئی نہیں تھا۔ جب ایس پی طاہر داوڑ کے اغواءکا معاملہ قومی میڈیا پر اجاگر ہوا تو انکے اغواءکے اگلے روز امریکہ میں مقیم وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ یہ بیان داغ دیا کہ ایس پی صاحب اغواءہرگز نہیں ہوئے بلکہ پشاور میں موجود ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ شہید ایس پی کے اہل خانہ کو انکے اغواءکے حوالے سے تشویشناک اطلاعات موصول ہورہی تھیں جو وہ کے پی کے حکومت اور پولیس حکام کے ساتھ شیئر بھی کررہے تھے مگر مغوی کا کھوج لگانے کے معاملہ میں متعلقہ حکومتی مشینری ٹس سے مس نہ ہوئی۔ نہ وزارت داخلہ کی جانب سے کسی قسم کی تحقیقات کا حکم دیا گیا اور نہ ہی افغان حکام سے رابطے کی ضرورت محسوس کی گئی تاآنکہ اغواءکے دو ہفتے بعد ایس پی طاہر داوڑ کے افغانستان میں بہیمانہ قتل کی اطلاع موصول ہوگئی اور افغان تحریک طالبان نے انکے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست کی جانب سے اپنے ایک ذمہ دار شہری کے اغواءسے قتل تک کس بے نیازی کا مظاہرہ کیا گیا اور اغواءکے بعد ان کا کھوج لگانے میں کس قدر غفلت کی گئی۔
اس پورے عرصہ کے دوران شہید ایس پی کے لواحقین کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی اور انکے قتل کی خبر ملنے پر وہ کرب کی کس کیفیت سے گزرے ہونگے‘ ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو یقیناً اس کا بھی احساس اور اندازہ نہیں ہوگا۔ اس ساری افسوسناک صورتحال میں گزشتہ روز وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کی جانب سے سینٹ میں پیش کی گئی یہ وضاحت شہید کے لواحقین کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق نظر آتی ہے کہ سابق حکمرانوں کی جانب سے اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت نصب کئے گئے 18 سو سی سی ٹی وی کیمروں میں سے چھ سو خراب ہوچکے ہیں اور دوسرے کیمروں سے گاڑی کی نمبر پلیٹ اور کسی کے چہرے کی شناخت ہی نہیں ہو سکتی اس لئے اغواءکنندگان کو شہید ایس پی کو اغواءکرکے افغانستان لے جانے میں آسانی ہوئی۔ یہ وضاحت ہر خرابی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈالنے کے کلچر کی عکاسی تو کرتی ہی ہے جبکہ یہ وضاحت اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ حکومت تو شہید ایس پی کے اغواءکے واقعہ سے ہی انکاری رہی ہے اور انکے اغواءاور افغانستان لے جائے جانے کی خبروں پر میڈیا پر غصہ اتارتی رہی ہے۔ بالفرض محال اگر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت ناقص کیمرے نصب کرانے کی سابقہ حکومت ذمہ دار ہے تو موجودہ حکومت نے یہ نظام درست کرنے میں کیا اقدامات اٹھائے جبکہ اسکے اقتدار کے سو دن اب پورے ہونے کے قریب ہیں۔ چیئرمین نیب نے سیف سٹی پراجیکٹ کے معاملہ کا بہرصورت نوٹس لے لیا ہے۔ اسکی بھی ضرور تحقیقات ہونی چاہیے مگر موجودہ حکومت نے سکیورٹی نظام میں موجود نقائص دور کرنے کی جانب اب تک کیوں توجہ نہیں دی۔ کیا اس پر بھی متعلقہ حکومتی ریاستی اداروں کی جوابدہی نہیں ہونی چاہیے۔ آج اسلام آباد ہی سے سی ڈی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے لاپتہ ہونے کی افسوسناک اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں تو یہ صورتحال اسلام آباد ہی نہیں‘ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی عوام کے قطعی غیرمحفوظ ہونے کی غمازی کررہی ہے۔ اگر شہید ایس پی کی افغانستان منتقلی سے وہاں انکے بہیمانہ قتل اور پھر انکی میت پاکستانی حکام کے حوالے کرنے سے افغان حکام کے انکارتک کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملہ میں بھی حکومت نے افغان حکام کے روبرو سخت موقف اختیار کرنے اور سٹینڈ لینے سے گریز کیا جس سے حکومت ہی نہیں‘ ریاست کی کمزوری کا بھی تاثر اجاگر ہوا۔ اتنے بڑے واقعہ پر افغان ناظم الامور کی دفتر خارجہ میں محض دو بار طلبی سوائے رسمی احتجاج کے اور کچھ بھی نہیں جبکہ کابل انتظامیہ نے ایک عرصے سے پاکستان کے ساتھ انتہائی سخت موقف اختیار کر رکھا ہے جس کی جانب سے افغانستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی ہر واردات کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال کر سرحدی کشیدگی بڑھائی جاتی ہے اور پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے معاملہ میں بھی ہر بار کابل انتظامیہ ہی مزاحمت کرتی نظر آتی ہے جبکہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف گھناﺅنی بھارتی سازشوں میں وہ عملاً اسکی معاون اور سہولت کار ہے۔
اگر افغانستان ہمارے دشمن بھارت ہی کی طرح ہماری سلامتی کیخلاف عزائم رکھتا ہے جس کا افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی زبانی عندیہ بھی ملتا رہتا ہے تو اس صورتحال میں ہمیں افغانستان کے اندر سے گاہے بگاہے پاکستانی چوکیوں پر کی جانیوالی فائرنگ اور ایس پی پشاور کے سانحہ¿ قتل پر محض رسمی احتجاج کرنا چاہیے یا کابل انتظامیہ کو ”انف از انف“ والا مسکت جواب دینے کی ضرورت ہے؟ اب جبکہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے ایس پی پشاور کے قتل کو دہشت گردی سے اوپر کی کوئی کارروائی قرار دیا جاچکا ہے جو درحقیقت اس امر کا پیغام ہے کہ قتل کی یہ واردات ممکنہ طور پر کابل حکومت اور افغان ایجنسیوں کی معاونت سے رونما ہوئی ہے تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے پاک افغان سرحد پر فوری اور ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اس لئے حکومت کو اپنے مخالفین پر الزام تراشی کی سیاست سے باہر نکل کر ملک کی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ ایس پی پشاور طاہر داوڑ کا اغواءاور افغانستان میں انکے قتل کا سانحہ اس تناظر میں بلاشبہ بہت سے سوال اٹھا رہا ہے جن کا بہرصورت پارلیمنٹ میں تشفی بخش جواب آنا چاہیے۔