عمران خان کی حکومت میں اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کئے جانے کے ایشو سے کیا مراد لی جائے؟۔ پی ٹی آئی کی کسی خاتون رکن قومی اسمبلی نے اسرائیل کی حمایت میں تقریر کر دی تو اسے پی ٹی آئی کا موقف یا پیغام سمجھا جائے؟بلاشبہ اسرائیل ایک حقیقت ہے لیکن فلسطین پر ناجائز قابض اس ناجائز ریاست اسرائیل کو پاکستان کے لئے تسلیم کرنا مشکل ترین اقدام ہے۔ دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک وقت آئے گا کہ سارے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے اور پھر کہیں ایسانہ ہو کہ پاکستان اکیلا رہ جائے۔ گزشتہ چند برسوں کے عالمی حالات کو دیکھتے سنتے پہلی بار خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ شاید اسرائیل کو عرب اور دیگر مسلم ممالک سے تسلیم کروانے کیلئے بڑی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اسرائیل کے مسلم ممالک سے خفیہ رابطوں کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ اسرائیل سے مخالفت کا سبب اس کا تاریخی پس منظر ہے۔فلسطین میں مسلمانوں کو 1924ءسے پہلے بہت بڑی اکثریت حاصل تھی اور یہودی ک±ل آبادی کا چھ فیصد تھے۔ 1917ءمیں برطانیہ نے اس ملک کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کر لیا اور دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد یہودیوں کو ترغیب دی کہ وہ فلسطین میں آ کر آباد ہو جائیں۔ مختلف یورپی علاقوں سے وسیع پیمانے پر یہودیوں نے فلسطین کی جانب سے نقل مکانی کی۔ عربوں نے یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ملکی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ مگر برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس ملک کو متنازعہ بنا کر چھوڑ دیا۔ ہندوستان کی تقسیم میں بھی انگریز راج نے جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ یہی سلو ک کیا، فلسطین میں یہودیوں کی پشت پناہی کی اور کشمیر یوں کے خلاف ہندوﺅں کی حمایت کی اور جموں و کشمیر کو بھی تنازعہ بنا کر چلے گئے۔ 1948ءمیں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے فلسطین کو تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا اور دوسرا حصہ بطور اسرائیلی ریاست تسلیم کر لیا گیا۔ عربوں کو یہ تقسیم گوارا نہ تھی اور انہوں نے یہودیوں سے آزادی کی جنگ شروع کر دی مگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے اسرائیلی سلطنت مضبوط ہوتی چلی گئی اور پھر یہ زمانہ آیا کہ اسرائیلی خطہ اپنے باپ دادا فرعون کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اسرائیلیوں کی قبل از مسیح تاریخ کا مطالعہ قرآن پاک سے کیا جائے تو یہودیوں کی فطرت کا صحیح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ہم نے اپنی کتاب (صحف آسمانی کا مجموعہ) میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاﺅ گے۔ آخر کار جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو بنی اسرائیل ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لئے بھلائی تھی اور ب±رائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے ب±رائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسروں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھ±سے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔ ہو سکتا ہے اب تمہارا رب تم پر رحم کرے لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے اور کفران نعمت کرنے والوں کے لئے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے“ (سورہ¿ بنی اسرائیل)۔ مذکورہ آیات مبارکہ کے پس منظر کے مطابق حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ ان قوموں میں بدترین قسم کا شرک اور ب±رائیاں پائی جاتی تھیں۔ تورات میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سرزمین چھین لینا اور ان کی خرابیوں کو اپنانے سے گریز کرنا۔ لیکن اسرائیلی جب فلسطین میں داخل ہو ئے تو اللہ کے احکام بھول گئے، فلسطین کا ایک حصہ لے کر الگ ہو گئے اور یہاں موجود گمراہ اور مشرک قوم کی ب±رائیوں میں غرق ہو گئے۔ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی تفصیل خاصی طویل ہے، حضرت موسیٰ کے بعد بھی انبیاءاور نیک بادشاہ تشریف لاتے رہے مگر بنی اسرائیل اپنی نافرمانیوں اور ب±ری روش کی بنا پر پسپائی کا شکار رہے۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہو چکی تھی وہ بھی حضرت سلیمان کے بعد بہت جلد شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی۔ آخر 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کا نام و نشان مٹا دیا۔ یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر تتر بتر کر دیا۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں انہیں دی گئی۔ آیات مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ایک بار پھر مہلت دی، بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے کے مواقع پیدا کر دئے۔ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کا موقع مل گیا۔ حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بیڑا اٹھایا۔ ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد ہوا۔ اسرائیلیوں کی تباہی کا دوسرا دور رومی فاتحین کا فلسطین پر قبضہ تھا۔ انہوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا اور بزورِ شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا۔ اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ 33 ہزار آدمی مارے گئے، اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر تعمیر نہ ہو سکا۔ یہ تھی وہ سزا جو قرآن کے مطابق بنی اسرائیل کو دوسرے فساد عظیم کی پاداش میں ملی۔دور حاضر کی تاریخ کی طرف آتے ہیں جب یہودیوں نے انگریزوں کے ایما پر فلسطین پر قبضہ کیا اور یہو دو نصاریٰ کے گٹھ جوڑ نے اسرائیل کو بطور ایک یہودی ریاست تسلیم کرایا۔پاکستان کی بھارت سے ناچاکی کا سبب مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل سے مخالف کی وجہ فلسطین کی حمایت ہے۔ پاکستان نہ مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہو سکتا ہے اور نہ فلسطین کو تنہا چھوڑ سکتا ہے۔واحدمسلم ایٹمی طاقت پاکستان اپنے فلسطینی اور کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024