دنیا بھر میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی اْنہوں نے صنفی تفریق کئے بغیر کی، عورت اور مرد کو برابری کے حقوق دیئے اور برابری کی سطح پر کام کرنے کے مواقع بھی فراہم کئے۔ پاکستان کا آئین بھی تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کا حق دیتا ہے۔جس کی بنیاد پر کوئی امتیازی قانون نہ ہوگا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں پر سیڈاکوایک اہم حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ کنونشن دنیا کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے خلاف ہرقسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن ہے۔ اسکے Gender Reform Action Plan جس پر پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ Melinium Development Goal ان تمام عالمی اعلانات کا مطلب ہے کہ پاکستان میں عورتیں برابر کے حقوق اور عزت کی حقدار ہوں گی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی قوانین عورت کے وجود، اسکے حقوق کوتسلیم کرتا ہے لیکن معاشرہ ابھی تک فرسودہ نظام کے تحت اکثر اوقات ان حقوق کی پامالی کا سامان کرتا رہتا ہے۔ گھر سے باہر نہ صرف عورت جنسی خوف وہراس کا شکار ہے بلکہ اب تو اسمبلی کے ایوانوں میں بھی خاتون ممبروں پر بے ہودہ آوازے کسے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ ذہنی پستی اور کیا ہوگی؟ وراثت کے معاملات ہوں یا ملازمت کے ہر جگہ عورت کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ کم عمر لڑکیوں کے وٹے سٹے کے تحت بڑی عمر کے مردوں سے شادی اکثر مضافات کا عام رواج ہے۔ غرض یہ کہ سماجی تشدد کی مختلف شکلیں ہیں۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ایسی شادیاں سرعام اور وسیع پیمانے پر ہورہی ہیں اور اس کیلئے کسی سزا اور قانون کا کوئی ادراک اگر ہے بھی تو اسکا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی حکومت کے دور میں عورتوں کو ترقی کے بہت سے مواقع ملے۔ بلدیات باڈی میں عورتوں کو33فیصد صوبائی، قومی اور سینٹ میں پہلی دفعہ17فیصد نمائندگی دیکر سیاسی بااختیاری دی گئی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ جینڈر ریفارم پروگرام کے تحت عورت کو ہر سطح پر برابر لانے کا کام شروع ہے۔ ایک امر افسوسناک ہے کہ دیہات میں عورت70 فیصد کام کرتی ہے جبکہ شہروں میں اکثریت کام کرتی ہیں لیکن انکی سروس کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ عورت کا حق دراصل سماج کا حق ہے۔ مغربی معاشیات میں معیشت کا تصور مادیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں معاشی ترقی سے مراد دنیاوی اور مادی حوالوں سے انسانی کامیابی کا حصول ہے۔ جدید معاشیات کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوا اور اس کا بانی ایڈم اسمتھ ہے۔ ایڈم اسمتھ کی معروف کتاب The wealth of Nation منظر عام پر آئی اور اس نے بلاشبہ دنیا پر اپنے گہرے اثرات بھی مرتب کئے۔ چنانچہ آج مغربی معاشیات کے تحت معاشیات دولت کا علم ہے۔ ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو عورت میں قدرتی طور پر وہ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں جو نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہیں بلکہ ان پر اپنے گہرے اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔ اسلامی تاریخ میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کے علاوہ بہت سی مسلم خواتین ہیں جن کا معاشرے کے بنانے بلکہ قانون سازی میں بھی اہم کردار رہا ہے۔حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسکی بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ تاریخ عورتوں کی فہم و فراست، تدبر، شجاعت وبہادری کے کارناموں اور حکمرانی جیسی خصوصیات سے بھری ہوئی ہے۔ عورت ناقص العقل ہوتی تو نسلوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش اسکے سپرد نہ کی جاتی۔ علی مردان خان کی اکلوتی بیٹی گیتی آراء بیگم پہلی مسلمان خاتون تھیں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں عورت کو فن سپاہ گری سکھانے کیلئے باقاعدہ مدرسہ قائم کیا۔ انقلاب چین میں بھی وہاں کی نوجوان لڑکیوں نے بڑا کام کیا۔ برموس کی سب سے خطرناک لڑائی میں اگر عورتیں تلوار سونت کر رومیوں پر نہ پل پڑتیں تو مسلمان ضرور شکست کھا جاتے۔ طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبداللہ نے جس بامردی اور ہمت کا مظاہر ہ کیااسی بناء پر علامہ اقبا ل کو اسے ’’آبروئے اُمت‘‘ کا خطاب دینا پڑا، افسوسناک امر ہے کہ بجائے اپنے حقوق پہچاننے کے عورت آج خود اپنا استحصال کرنے پر بھی تلی ہوئی ہے۔ جدیدیت کی یہ کونسی قسم ہے جس میں سرتاپا تنگ اور کسے ہوئے ملبوسات پہن کر مارکیٹ میں جاکر اپنی بے جا نمائش لگا دی جائے۔ افسوس ہوتا ہے اپنے اردگرد اشیاء کے اشتہارات دیکھ کر جس میں عورت بذات خود ایک پراڈکٹ کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔ سگریٹ پان سے لیکر شیونگ کے اشتہارات تک میں عورت باعث نمائش ہے۔ عورت کی آزادی کیخلاف نہیں ہوں۔ بیشک عورت بھی انسان ہے اور آزاد ہوا میں سانس لینے کا پورا حق رکھتی ہے لیکن اپنی تذلیل پر کیوں تیار ہوگئی ہے۔ ایک مشہور برانڈ پر کپڑوں کی شاپنگ کیلئے جانا ہوا جہاں عورت کی بڑی بڑی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ عورت کے کپڑوں کے اشتہار میں عورت ہی ہوگی لیکن انکے کھڑے ہونے کے انداز مختلف اینگلز سے جسمانی ادائیں اور چہرے پر ایک خاص قسم کے تاثرات کے ساتھ اْن کی فوٹو گرافی دیکھ کر خود پر شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ کیا ملبوسات کے اشتہارات کیلئے خاص نازوانداز اور چہرے پر عجیب قسم کے تاثرات کے بغیر ہنستے مسکراتے سادہ انداز میں نہیں بنائے جاسکتے؟ جن اشتہارات میں عورت کے وجود کی ضرورت نہیں وہاں عورت کو خود آواز اٹھانا ہوگی اور اس سسٹم کو بریک کرنا ہوگا۔ ٹی وی دیکھ لیں، اخبار اْٹھا لیں، سڑکوں پر بورڈز دیکھ لیں۔ کہاں کیا ہے عشوہ نازو ادا کے جلوے نظر نہیں آئینگے۔ اپنے حقوق کا استعمال ضرور کیجئے۔ حق سے باطل کے سامنے ڈٹ جائیے لیکن خدارا اپنی پائمالی کا سبب تو مت بنئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38