اب جب سے لکھنا کم ہوا۔ یعنی جوکالم ہر ہفتے شائع ہوتا تھا مصروفیات کی بنا پر بمشکل دو ہفتے بعد ہی تحریر کرنا پڑا تو یہ بات سامنے آئی کہ اب خیالات بھی اسی رفتار اور تنوع سے ذہن میں آتے ہیں ۔نظر چاروں طرف دیکھتی ہے تو کئی ایک سوالات خود ایک کالم بن جاتے ہیں مگر لکھنا کم کیا تو تساہل بڑھ گیا۔ پھر بھی کچھ واقعات یا چہرے نظروں میں ایسے گھوم جاتے ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتے ۔اچھے چہرے اور بڑے لوگ تو گھر یا ادھر نظر میں آئے تو ادھر بھول گئے۔شاید یہ قدرت کا نظام ہے یا انتقام کہ معاشرے کے جعل ساز دانشور، نوسرباز نودولتیے ،سود خورمتقی ہوئے غلامی کے عادی نشہ باز، لیٹرے راہنما ،دولت کی ہوس کے مارے مسیحا اور ذہنی طور پر بے مایہ لوگ کہیں نظر آجائیں تو طبیعت متلا جاتی ہے۔ خاص طور پر ایسے حشرات الارض کو جب دنیاوی لحاظ سے کامیاب وکامران دیکھ کر کئی شرفاء بھی ان کی توقیر کرتے د کھائی دیتے ہیں تو اس منظر کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔پھر قلم بے تاب ہوجاتا ہے ۔ سو میں بھی حاضر ہوں اور قلم کی صدا بھی اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہی سہی۔گذشتہ چند دنوں میں معاشرے کے ایسے ہی کئی کھوکھلے کرداروں کو دیکھنے کا موقع ملاتو قلم روک نہ سکا۔یہ ایک گائنی ڈاکٹر صاحبہ ہیں۔لیکن ذراٹھہریئے پہلے آپ ذرا امریکہ کے ہسپتالوں کا ایک منظر دیکھ لیں۔وہاں بے شک کوئی خاتون کسی پرائیویٹ ڈاکٹر سے علاج ومشورہ کرتی ہو۔ اولاد پیداکرنے کیلئے اسے سرکاری ہسپتال ہی جانا پڑتا ہے۔یہ ایک قانونی تقاضا وضابطہ ہے کیونکہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی امیگریشن کے علاوہ دیگر قانونی معاملات کی واحد ضمانت سرکار کا ہسپتال ہی ہوتا ہے کوئی چاہے کتنے ہی درد سے دوچار کیوں نہ ہوڈاکٹر آخری حد تک اس چیز کا خیال رکھتے ہیں کہ بچے کی پیدائش نارمل طریقے سے ہو۔کسی کا پیٹ چاک نہ کرنا پڑے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہسپتالوں کی گائنی ڈاکٹر کا ماہانہ سروے کیا جاتا ہے کہ کون سی ڈاکٹر نے نارمل طریقے سے پیدائش کے عمل کو مکمل کیاتو ایسی ڈاکٹرکو ہسپتال اپنے طور پر مختلف قسم کے اعزازات سے نوازتا ہے۔ جن گائنی ڈاکٹروں کا دھندہ ہی پیٹ چاک کرنا ہوتا ہے چاہے نارمل پیدائش کا کیس ہی کیوں نہ ہو ایسی ڈاکٹروں کے خاوند،بھائی اور دیگر مرد افراد کو میںنے ہڈ حرام اور معاشرے کیلئے ناکارہ ہی پایا ۔ایسی شہرت تو ایک خوشی کی بات ہے کہ لوگ انہیں مجبوری کے تحت پیسہ تو دینے کیلئے تیار ہیں مگر عزت نہیں یہ ایک اور ڈاکٹر صاحب ہیں"ماہر امراض چشم"۔مہارت کا یہ عالم ہے کہ آپ شہر میں جس دوسرے اندھے آدمی کو ہاتھ لگائیں گے تو بیچارہ کبھی نہ کبھی انہی ڈاکٹر صاحب کا تختہ مشق بنا ہوگا ۔جن کی آنکھوں پر "ماہر "نے کام سیکھنے کی کوشش کی آنکھوں کی بیماریوں کا علم تو نہ جان سکے مگر نہ جانے کیا جی میں آئی کہ "علم خوشامد"میں طاق ہوگئے مریضوں کو تو امان نہ مل سکی البتہ شہر کے سیاسی بونوں کی مالش کرکے اپنے بیٹے کو ایک مقامی ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال کا ایم ایس بنوا دیا جو عرصہ داراز تک اس پرکشش عہدے پر براجمان رہے اور مال دولت ودنیا جمع کرتے کرتے خوانچہ فروشوں کو بھی معاف نہ کرتے، ان سے مفت کے مالٹے لیکر کھاتے اور "وٹامن سی"کے فوائد بیان کرتے ۔اب کہاں ہیں ، شہر بھر میں کسی کو اتہ پتہ معلوم نہیں ۔سنا ہے کہ ایک مسجد کے خزانچی بن کر " اللہ لوک" ہوگئے ہیں۔ عرصہ ہوا ریلوے کے ٹی روم میں ایک صاحب باقاعدگی سے آتے اور احباب کی خوب تواضع کرتے ۔کلف لگے کپڑے، گولڈلیف کے سیگرٹوں کی ڈبی اور خوبصورت گھڑی کے علاوہ ہاتھوں میں دوعدد طلائی انگوٹھیاں ان کی شان بیان کررہی ہوتیں۔انکے کاروبار ومعاش کے بارے میں جستجو ہوئی تو دریافت ہوا کہ جناب ایک سود خور ہیں اور ٹی روم پر بھی سفید پوش طبقے سے اپنے گاہک ڈھونڈنے آتے ہیں انہیں کسی نہ کسی کاروبار کی طرف مائل کرکے سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور زندگی بھر کیلئے سود کا جواء اسکے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔جب تک ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے چند لوگ انکے "کلائینٹ"بن چکے تھے۔ پھر بڑی مشکل اور جتن سے کچھ صاحب دل لوگوں نے اپنا اثر وسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کی جان چھڑائی۔کئی سالوں بعد شہر بھر میں اچانک قسطوں پر بجلی کے آلات، موٹر سائیکل اور موبائل فون وغیرہ کے بڑے بڑے اور شان وشوکت والے شوروم کھل گئے۔ ایک دن انکشاف ہوا کہ یہ شوروم انہی صاحب کی ملکیت ہیںجنہوں نے اب "دیسی "سود خور کی بجائے یہ مکروہ دھندہ جدید انداز میں شروع کردیا ہے ہمارے شہر کے مذہبی راہنما،" سیاسی کول ڈوڈے"، سماجی خود پسند اور لمبے ناخنوں والی این جی اوز کی فیشن ایبل سول سوسائٹی اب انہیں "دستاربندی"سے لیکر انسانی حقوق کی "واک"تک میں مہمان خصوصی کے طور پر بلاتے ہیں ۔اب آخر میں بارے ذکر ایک بڑے آدمی کا ہو جائے ۔ گوجرانوالہ کی سیاست میں ناکام مگر صحافت کے بڑ ے کردار کامریڈ عرفان کا جو گذشتہ دنوں قومی سیاست میں کارکنوں کی بے توقیری کا نوحہ بن کر عدم آباد کو سدھار گئے۔ ان کا تعلق معراج محمد خان مرحوم کی جماعت ـ" قومی محاذ آزادی" سے تھا اور ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی جدوجہد کرتے کرتے ان کا مستقبل گہنایا ہی چاہتا تھا کہ ایک مقامی ہفت روزہ " فری پریس" کی بنیاد ڈالی جو بعد میں روزنامہ ہو گیا ۔کامریڈایک ان تھک اور دیانتدار صحافی تھا اللہ نے اس کا صلہ ضائع نہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر کاایک بڑا مقامی اخبار بن گیا جس کا انتطام اب کامریڈ کے بیٹے حارث کے ہاتھ میں ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024