پاک بھارت کشیدگی  ''چشم دلال، جنس رسوائی'' 

May 17, 2025

ایم یوسف عزیز

ایم یوسف عزیز
azizmyousuf@yahoo.com

پاکستان ہندوستان کے درمیان ہونے والی حالیہ 6 سے 10 مئی تک جنگی کشیدگی میں جہاں پاکستان نے دشمن کو بری طرح ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس تمام کارزار کے پس منظر میں مختلف عوامل بشمول بہتر و برتر جنگی حکمت عملی، منتخب اہداف کا انتخاب، فضائیہ کے پرجوش اور پیشہ وارانہ مہارت سے دشمن کے جہازوں کی جامنگ اور دیگر جدید ٹیکنالوجی سے مزین ہمارے نوخیز شاہینوں نے عقابوں سے بڑھ کر کردار ادا کیا اور دشمن کو نہ صرف اپنی سرحد سے ایک انچ اندر آنے نہ دیا بلکہ اس کی سرزمین پر جا کر دو درجن سے زائد ہوائی اڈوں کو برباد کیا۔ سائبر تکنیک سے ان کے توانائی کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے گرڈ سٹیشنوں پر سائبر حملے سے ہیک کر کے ملک کے اندر اندھیرا مسلط کر دیا۔  ان تمام حکمت عملیوں کے جزوی یا کلی استعمال کے علاوہ کئی شروعات ابھی صیغئہ راز میں رکھی گئی ہیں تاکہ خود مست و مکار، بے حس و کم فہم فریبی دشمن کے کسی بھی بزدل وار کا آئندہ بہتر طور پر کم سے کم وقت میں جواب دے کر اسکے دانت کھٹے کیے جائیں۔ ان تمام عوامل سے جڑے زمینی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے خود مست و خود فریبی کا شکار، مست مئے پندار کا شکار بنیا ایک طرف کہہ رہا ہے کہ اس نے پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے اپنی فوجوں کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ جب کہ اسکی فوجوں کے ترجمان بشمول کرنل صوفیہ قریشی اور انکی دیگر ہمنوا مع وزارت خارجہ کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک بین الاقوامی دلال کے کہنے پر جنگ بندی کے پابند ہیں اور جاری تنا میں بہر طور کمی چاہتے ہیں۔ لیکن جنس رسوائی اورمزید ذلت و خواری کا خواہاں کم و بے حس چائے والا بنیا اب بھی قوم سے اپنے نام نہاد خطاب میں جنس رسوائی کا خریدار نظر آتا ہے جس کے بارے میں غالب کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسہال میں مبتلا چائے والے بنیا کے ہونٹوں پر اب بھی یہ شعر بار بار آ رہا ہے۔
چشم دلال جنس رسوائی 
دل خریدار ذوق خواری ہے
 اس چند روزہ جنگی کشیدگی میں ایک انتہائی اہم اور مثر عوامل سکھوں کا کردار ہے جو فریقین کے اپنے اپنے دعووں کی تشہیر و توضیح کے نیچے کہیں دب گیا ہے جس کی طرف ملک کے موقر روزنامہ نوائے وقت نے اپنے تیرہ مئی کی اشاعت میں بجا طور پر اپنی جلی سرخی میں پاکستان سے جنگ میں رسوائی، انڈین آرمی کی سکھ رجمنٹ میں بغاوت کے تحت انڈین آرمی میں سکھ رجمنٹ میں سکھ سپاہیوں نے ہندوستانی فوج کا ساتھ دینے سیصاف انکار کیا۔ بھارت کے اپنے سماجی ذرائع ابلاغ کے مطابق بغاوت کے خطرے کے پیش نظر سکھ رجمنٹ سے ہتھیار واپس لینے کی کوشش سے بغاوت کا آغاز ہوا، سکھ سپاہیوں نے ہندوستان مردہ باد کے نعرے لگائے اور دہلی میں مختلف یونٹس میں اپنی وردیاں جلا دیں۔ لدھیانہ چھانی سے بغاوت کا آغاز 14 سکھ رجمنٹ سے شروع ہوا، جو آہستہ آہستہ دوسری رجمنٹس اور چھانیوں میں پھیل گئی۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے لئے آزمائش کی اس گھڑی میں سکھوں کے اس کردار کے پس منظر میں کون سے عوامل کارفرما تھے جسکا واضح جواب یہی ہے کہ۔ ایک تو پاکستان نے کرتارپور راہداری کے ذریعے سکھوں کو انکے متبرک مقام تک آسان اور سستی رسائی فراہم کی۔ دوسرا وہ ننکانہ صاحب کو جو بابا گرونانک کا جنم استھان ہیکو بہت مقدس سمجھتے ہیں اس لیے وہ پاکستان کی طرف سے ننکانہ صاحب کی تعمیر و ترقی اور تحفظ و آمان کے لیے کوشاں رہنے کو سراہتے ہیں دراصل اسکے پیچھے سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی وہ تعلیمات ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنی پہلی منظوم کلیات بانگ درا میں نانک نامی نظم میں انہیں ہند کا گوہر یک دانہ اور ایسا مرد کامل قرار دیا ہے جس نے پنجاب میں توحید کی صدا کو عام کرتے ہوئے دوام بخشا۔
 قارین کی دلچسپی کے لیے یہ پوری نظم بھی شامل تحریر ہے۔

نانک
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

آہ بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا

شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی

آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

مزیدخبریں