
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ایسے بدترحالات نہ پاکستان میں کبھی پہلے دیکھے، نہ سنے اور نہ ہی کبھی پڑھے تھے اور اس طرح سیاستدانوں کو کبھی انتخابات سے خوفزدہ ہو کر راہِ فرار اختیار کرتے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان لوگوں پر تو شک ہوتاہے کہ انہوں نے سیاست میں اتنا نام کمایا ہے، وہ سیاستدان ہیں بھی یا نہیں۔ جمہوریت میں مقابلہ سیاسی میدان میں ہوتا ہے، حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاتی ہے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ محض شکست کو دیکھ کر انتخابات گریز بیانات، کالعدم قرار دلانے اور پابندیوں میں جکڑنے کے منصوبے۔ کیا یہ سیاست اور جمہوریت ہے۔ تیراک تالاب میں اترنے سے گریز کرے، ڈرائیور ڈرائیونگ سے انکار کرے ، سیاستدان انتخابات میں نہ جانے کے جواز تراشے، سب ایک ہی بات ہے۔ آج حکومت میں موجود ساری پارٹیاں ایک زبان ہو کر عمران خان کی حکومت کے دوران انتخابات کا مطالبہ کرتی تھیں۔ جس زور و شور سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے خود حکومت میں آئے تواب انتخابات نہ کرانے پر اس سے زیادہ ’’ولولہ‘‘ دکھایا جا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کے دعویدار ہیں وہ تو انتخابات سے کبھی نہیں گھبرائے تھے جبکہ بلاول بھٹو زرداری ان قوتوں کے آلہ کار بن گئے جو انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔آج حالات جس طرح دگرگوں اور مخدوش ہیں حکومت کی الیکشن گریز پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے حکومت کس حد تک چلی گئی ہے یہ بھی کبھی پاکستان میں نہیں ہوا۔ عدلیہ کی تضحیک ججوں کے نام لے کر،ان پر دشنام، ان کے خلاف قانون سازی کابینہ کے اجلاسوں اور پارلیمنٹ کے فورم پر مذمتی قراردادیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔
عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کو مطلوب ہونے پر اٹھا کر قید کر دیا گیا۔ عمران خان پر ڈیڑھ سو مقدمات ہیں۔ وہ کبھی اسلام آباد اور کبھی لاہور کی عدالت میں ہوتے ہیں۔ سابق کسی وزیراعظم پر اتنے مقدمات بھی کبھی نہیں بنے۔ ان کو گرفتار کرنا تھا تو کریں اس کیس میں کیا خاص تھا۔ بڑے بڑے لیڈر گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی بھیانک طریقے سے ہوتے ہوں مگر ایسا عوام نے کبھی دیکھا نہیں۔ جس طرح ریڈکیاگیاکالر سے پکڑا گیا۔ ویل چیئر سے اٹھا کر گھسیٹا گیا اور یہ سارا عدالت کے احاطے کے اندر ہوا۔ اس پر پی ٹی آئی کے ورکرز اشتعال میں آئے۔ کوئی ایک بھی گرفتاری کے اس طریقہ کار سے متفق نہیں ، سوائے سفاکانہ ذہنیت رکھنے والوں کے۔ گرفتاری سے کیا حاصل ہوا۔ پورے ملک میں جلائو گھیرائو، اطلاعات کے مطابق سو سے زائد افراد جاں بحق ، ہزار سے زائد زخمی ،بڑے لیڈروں سمیت 5ہزار گرفتار کیے گئے۔ 60ارب ڈالر کی املاک کا نقصان۔ جدید دور میں انٹرنیٹ پر کاروبار منتقل ہو رہے ہیں۔ تین دن نیٹ کہیں بند زیادہ تر محدود رہا۔ گرفتار ہونے والے رہا ہو جائیں گے مگر کئی چیزوں کا کوئی متبادل نہیں۔ جلی املاک سے زیادہ مرنے والے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ عمران خان کو دوبارہ رہا کر دیا گیا۔ ان کو ضمانتیں ملنے کے بعد بھی احاطہ عدالت سے نکلنے نہیں دیا جا رہا تھا انہوں نے پیغام جاری کیا تو لاہور روانہ ہونے دیا گیا۔
اداروں کے اندر ایسی تقسیم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ حکومت کی طرف سے اپنے مقاصد کے لیے عدلیہ اور پاک فوج کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی۔ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم سب کچھ اوپر والوں کے کہنے پر ہی کر رہے ہیں۔ فلاں کی گرفتاری سے ہمارا تعلق نہیں ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لوگ لاہور میں کورکمانڈر کے گھر داخل ہو گئے۔ جی ایچ کیو میں بھی یہی کچھ ہوا، کورکمانڈر ہائوس تو جلا ہی دیا گیا۔ سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ سکیورٹی کہاں تھی۔ پوری دنیا میں ایک بار پھر تاثر گیا کہ پاکستان کی حساس ترین تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سب کیا پلاننگ کے تحت ہوا کسی سازش کے تحت ہوا جو بھی ہوا سوال یہی اٹھتا ہے سکیورٹی والے کہاں تھے؟۔کہا جاتا ہے سیکیورٹی والوں نے مذاحمت نہیں کی تاکہ ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔مذاحمت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔بس ان کے سامنے حصار کھڑا کر دیتے۔یہ لوگ آ تے نعرے لگا کر واپس چلے جاتے۔عمران خان کی طرف سے پھر کہا گیا ہے کہ آزادانہ انکوائری ہو۔وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں انکوائری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ادھر مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیخلاف احتجاج کررہی ہے۔عجب ہے کہ حکومتی پارٹیاں چیف جسٹس کے خلاف اس علاقے میں مظاہرہ کریں جہاں خود دفعہ 144لگائی ہے اور فوج کو بھی طلب کیا گیا ہے۔فوج تحریک انصاف کے احتجاج کوروکنے کیلئے بلائی گئی ہے۔حکومتی پارٹیوں کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے چیف جسٹس اور چند جج عمران خان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔الزام ہی نہیں بلکہ کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔جج عمران خان کیساتھ کیوں ملیں۔وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو ان کو پسند نہیں تو ایسے الزامات اور پھر جو کہا جاسکتا ہے کہا جارہا ہے۔پوری دنیا میں مذاق بن چکا ہے۔اُدھر یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ پاک فوج عمران خان کیخلاف ہے۔اس تاثر میں بھی صداقت نہیں۔ہوسکتا ہے کہ کچھ عہدیداروں کو عمران خان کی سیاست سے اختلاف ہے مگر فوج مجموعی طور پر کسی کے خلاف نہیں ہوسکتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے ادارے کے بڑے ذمہ دار جو فیصلہ کرتے ہیں اسے فوج کے فیصلے ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کے اسی کے مطابق عوام میں جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔
بچپن میں مجھے یاد ہے پاک فوج کا کانوائے گزرتا ہم سلیوٹ کے انداز میں ہاتھ ماتھے تک لے جاتے تو جواب میں جوان بھی سلیوٹ کرتے تو فخر سے ہمارا خون بڑھ جاتا۔ مشقوں کے لیے پاک فوج کے دستے ہمارے گائوں آتے تو باغات ،کھیت اور ڈیرے ان کے حوالے کر دیئے جاتے، کھانوں کے لیے ان کے انکار کے باوجود دیگیں پکائی جاتیں۔ 65ء میں قوم نے دفاعی فنڈ میں سب کچھ نچھاور کر دیا مگر اب وہی پاک فوج کی گاڑیوں پر ہجوم ڈنڈے برساتا ہے۔ ان گاڑیوں کو وہاں سے کیا اسی لیے گزروایا گیا تھا۔ایک طرف ادارے ہیں ایک طرف عمران خان ہیں ۔ایک طرف حکمران ہیںیہ تکون بن چکی ہے۔ حکمرانوں سے اپنی دھوتی ہی نہیں سنبھل ری یہ ملک و قوم کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ادھر عوام تکون کے درمیان ہیں۔ان کی نظریں اپنی بقا کیلئے آسمان کی طرف اُٹھی ہوئی ہیں۔دیکھیں کب ابرِ رحمت برستی ہے۔
قارئین!وطن عزیز میں حکمران خود قانون اور آئین پر عمل درآمد کرنے سے انکاری ہیں لہٰذا جب ملکی ادارے ملکی قانون کو ماننے سے گریزاں ہیں تو پھر ریاست کے جبری احکامات پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے؟ اب سول نافرمانی کا آغاز خود حکومت وقت نے کر دیا ہے لہٰذا گرفتاریوں کے لیے چھاپے اور پکڑ دھکڑ سب ماروائے آئین ہے اس لیے آپ کو گرفتار کرنے والا دراصل آپ کو آغوا کرنا چاہ رہا ہے اور اس کو روکنا اور مزاحمت کرنا آپ کا بنیادی حق ہے ۔ میرے اس بیان کی ہر پارٹی کا ورکر اپنی مرضی کی تشریح اور ترجمہ کرے گا مگر اس سے کیا حقیقت بدل جائے گی؟ اٹھیے برائلر چکن کی طرح ذبح مت ہوئے بلکہ ٹیپو سلطان کی طرح مقابلہ کیجیے، پھر خدانخواستہ آپ ہار بھی گئے تو تاریخ آپ کوہیرو کے روپ میں تاقیامت یاد رکھے گی اور تمہاری آنے والی نسلیں آپ کے نام پر فخر کرتی رہیں گی۔ انشاء اللہ یاد رکھیے پولیس، فوج ا ور عدلیہ کا احترام آپ پر فرض ہے مگر عدلیہ، پولیس اور فوج پر عوام کا احترام فرض ہے؟