دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
بہار موسموں میں
بے وقت خزاں کے ہاتھوں
خواہشوں کے خشک پتے
ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرے
زمیں پر تھے
الجھا تھا میں
بے چارگی میں جہاں
چرا کر نظر‘ادھر اُدھر
چارہ گر سارے یہیں پر تھے
متوازی سی راہوں پر
جوتھے میرے ہمسفر
خبر نہ تھی
کرلیں گے وہ
مخالف سمتوں کا تعین
سنا تھا ہم نے
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے
(داد صدیقی)