سیاسی استحکام اور معیشت

سیاسی عدم استحکام کے اثرات پاکستانی معیشت پر منفی پڑ رہے ہیں ۔ڈالر کی اڑان،زرمبادلہ کے ذخائر،بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ،بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسیب کی مانندِ معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیتا نظر آرہا ہے۔سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں اتحادی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک نے بھی ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے جو اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر میں گراوٹ کی صورت نظر آیا۔اگلے چند ماہ میں حکومت نے قریباً 20 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جو زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر میں ممکن نہیں۔ہر گزرتا ہوا دن پاکستانی معیشت کو خراب حالات کی جانب لیکر جارہا ہے۔معاشی ڈیزاسٹر سے بچنے کے لئے پاکستان کو فوری چند بڑے فیصلے لینا ہوں گے جو اتحادی حکومت کے لئے شائد مشکل ہوگا۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی نیا کو پار کیسے لگایا جائے؟
کہتے ہیں معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے لیکن آج کی گلوبل دنیا میں معاشی استحکام کے لئے مضبوط خارجہ پالیسی ہی سب سے اہم ستون ہے۔کورونا کی عالمی وبا کے بعد عالمی مارکیٹ میں آئل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت کے لئے بڑی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ان حالات میں جہاں دیگر ممالک اپنی خارجہ پالیسیز کو جیو اسٹریٹجک سے جیو اکنامک کی طرف شفٹ کر رہی ہیں وہیں موجودہ خارجہ پالیسی تضادات اور گومگو کا شکار نظر آرہی ہے۔ایک طرف امریکہ سے تعلقات بحالی کی شدید خواہش دوسری طرف بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بلاک پالیٹکس سے گریز نے پاکستان کے لئے سفارتی محاذ پر امکانات کو محدود کردیا ہے،جس کے اثرات کا سامنا لامحالہ پاکستان کی معیشت کو بھی بڑھتے ہوئے امپورٹ بل اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت کرنا ہوں گے۔2018 میں تحریک انصاف حکومت میں بھی معیشت کے قریباً یہی حالات تھے لیکن اس وقت پاکستان کی معیشت کو بیل آؤٹ کرنے والے چین،قطر،یوایای اور سعودیہ عرب جیسے دیرینہ دوست تھے آج وہ صورت حال نہیں! سوال یہ ہے اچانک دو ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا پر تاریخی قراداد کی منظوری،او آئی سی وزرائے خارجہ کے دو کامیاب اجلاس،ایران اور روس سے دوستانہ تعلقات کے آغاز جیسی سفارتی کامیابیاں حاصل کرنا والا ملک آج سعودیہ اور چین جیسے دوستوں کی سرد مہری کا سامنا کر رہا ہے؟ایک جانب وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودیہ عرب میں معاشی پیکج کے حصول میں ناکامی دوسری جانب نومنتخب حکومت کی طرف سے تاحال چین کا دورہ نہ ہونے موجودہ حکومت کی سفارتی پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات اٹھا دئیے ہیں۔عمران خان کی سفارتی کامیابیوں کے پس پردہ جہاں سابق وزیراعظم عمران خان کی بطور کرکٹر عالمی شہرت سے مدد ملی وہیں عمران خان کی مضبوط ساکھ اور پاکستان کی خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سفارتی تعلقات رکھنے کی پالیسی نے بھی خارجہ محاذ پر ملنے والی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔یہ عمران خان کی شخصیت کا ہی کرشمہ تھا جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہونے کے باوجود پاکستان کو چین،سعودیہ عرب،قطر اور یو اے ای سے قریباً 18 ارب ڈالر کی معاشی مدد ملی۔دو ووٹوں کی اکثریت سے سیاسی غیر یقینی کے سائے میں کھڑی کمزور اتحادی حکومت کے لئے خارجہ محاذ پر کسی بڑی سفارتی کامیابی یا دوست ممالک کی طرف سے بڑے معاشی پیکج کی امید دیوانے کا خواب ہی ہوسکتی ہے۔موجودہ حالات میں پاکستان کے پاس معاشی ڈیزاسٹر بات بچنے کے لئے آئی ایم ایف ہی واحد آپشن بچا ہے۔لیکن حکومت کے اپنے اندر آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر اتفاق رائے نظر نہیں آرہا۔مسلم لیگ ن کے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار جو کہ پارٹی کا معاشی دماغ سمجھے جاتے ہیں آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرول اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کے حق میں نہیں۔جبکہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔حکومت کے اپنے اتحادی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لیکر اقتدار میں آنے والے حکومت کے لئے فوری بڑے معاشی فیصلے سیاسی خودکشی ثابت ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت اس حوالے سے خوش قسمت تھی کہ اسے آئی ایم ایف سے 16 مرتبہ سخت شرائط سے چھوٹ مل گئی تھی جس کی بدولت اس وقت کی حکومت نے کامیابی سے آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کیا لیکن موجودہ کمزور مینڈیٹ والی اتحادی حکومت کے لئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچنا ممکن نظر نہیں آرہا۔اس مرتبہ آئی ایم ایف بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں سبسڈیز کے خاتمے کی شرط پر لچک دکھانے کو تیار نہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے ہٹ کر معیشت کی بحالی کے لئے دورس نتائج پر مبنی ٹھوس فیصلے لینا ہوں گے۔
سب سے پہلے ہمیں اپنی معیشت کی اورہالنگ کرکے پاکستان کو امپورٹ اکانومی سے ایکسپورٹ اکانومی بنانا ہوگا جو گاڑیوں،موبائل فونز،الیکٹرانک اشیائ جیسے لگڑری آئیٹمز پر بھاری ٹیکسز عائد کرکے امپورٹ کی حوصلہ شکنی کئے بغیر ممکن نہیں۔
دوسرے نمبر پر جب یورپی یونین،بھارت اور دیگر ممالک روس سے سستی گیس اور تیل امپورٹ کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟پاکستان کی وزارت خارجہ کو دنیا کے سامنے دوٹوک انداز میں یہ باور کروانا ہوگا کہ پاکستان نے اپنی عوام کی بہتری کے لئے فیصلے کرنا ہیں نہ کہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی ڈکٹیشن پر۔
چین کی معاشی ترقی کے پیچھے اصل راز زرعی معیشت سے انڈسٹریل معیشت کی طرف شفٹ کا فیصلہ تھا ہمیں بھی اپنی معیشت کو پیداواری معیشت بنا کر اپنے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔بدقسمتی سے 75 سال سے ہماری ایکسپورٹ ٹیکسٹائل اور چاول سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ہم اپنی معیشت کو پیداواری معیشت بنا کر افریقہ کے چھوٹے ممالک میں موٹروسائیکل،موبائل فونز،ٹیکسٹائل،الیکٹرانک اشیائ ،حلال فوڈ اور زرعی مصنوعات کی ایکسپورٹ سے سالانہ 100 ارب ڈالر تک زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔
بھارت اس وقت صرف آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے سالانہ 200 ارب ڈالر تک کما رہا ہے جبکہ پاکستان بھارت کے مقابلے آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے صرف 2 ارب ڈالر سالانہ سے بھی کم کما رہا ہے یہ بھی گزشتہ 2 سال میں 50 فیصد گروتھ سے پاکستان نے 2 ارب ڈالر کا ٹارگٹ حاصل کیا۔صرف ایک فیصلے اور ٹھوس آئی ٹی پالیسی کی بدولت پاکستان چند سالوں میں با آسانی صرف آئی ٹی کی ایکسپورٹ سے سالانہ 50 ارب ڈالر تک کما سکتا ہے۔
تارکین وطن کی بدولت سالانہ 30 ارب ڈالر ترسیلات زر اس وقت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہنا غلط نہ ہوگا لیکن اس شعبے میں بھی ہم خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے ہیں۔جنوبی ایشیا میں صرف بنگلہ دیش تارکین وطن کی ترسیلات زر سے سالانہ 40 ارب ڈالر کا کثیر زرمبادلہ حاصل کرتا ہے جو پاکستان سے 10 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ٹیکنیکل تعلیم کے فروغ اور ہنرمند افرادی قوت کی بیرون ممالک کھپت سے سالانہ 50 ارب ڈالر کی ترسیلات کا ٹارگٹ حاصل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔
22 مرتبہ آئی ایم ایف پیکج لینے کے باوجود پاکستان آج تک اپنے پاؤں پر کیوں نہیں کھڑا ہوسکا؟ 22 کروڑ آبادی اور زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم کیوں آج تک کشکول اٹھائے دربدر پھرنے پر مجبور ہیں؟کیوں ہم آج تک معیشت بارے ایک نکتے پر متفق نہیں ہوسکے؟ان تلخ لیکن حقیقت پر مبنی سوالات کے جوابات ریاست اور حکومت جتنی جلدی ڈھونڈ لے ملکی مفاد میں وہ اتنا اچھا ہ