سیاسی گرما گرمی اور بیچارے عوام

ایک جانب تحریک انصاف کے رہنماء عمران خان نے سابقہ ن لیگ کے بیانئے مجھے کیوں نکالا ایسے بیانیے ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ کے ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ وہ درست سمت اور ر ائے حق پر ہیں ان کو ہٹانے میں بیرونی عوامل ملوث ہیں عوام آئندہ الیکشن میں انہیں کامیاب کروا کے حکومت کرنے کا موقع فراہم کریں دوسری جانب ن لیگ کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ، ایم کیوں ایم وغیرہ کو ساتھ ملا کر ملک کو نامسائد حالات سے جلد سے جلد نکالنا چاہتے ہیں ، مریم نواز،بلاول بھٹو نے بھی جلسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس سے وہ نئے انتخابات کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور عمران خان کے جلسوں کو کاونٹر کررہے ہیں ،حکومت کا موقف ہے کہ عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کاکوئی ارادہ نہیں،ہم عوام کیلئے آئے ہیں اور ان کی زندگی آسان بنانے کیلئے کوشاں ہیں، موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں گے،اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں تو مستقبل میں ہمیں بھی قیمتیں بڑھانا ہوگی، معیشت جون میں عوام دوست بجٹ دینا ہے ملک کے استحکام کے لیے سخت فیصلے بھی کرنے ہوں گے،عمران خان نئی حکومت کے لیے لئے بارودی سرنگیں بچھا کر گئے ہیں ، تحریک انصاف کے دور حکومت میںپاکستان کو برآمدی ملک بنا دیا گیا،4سال پہلے گندم ،چینی برآمد کر رہے تھے مگر آج درآمد کر رہے ہیں، اب کاٹن اور دوسری زرعی اجناس درآمد کرنا پڑیں گی اس سال 45بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ برداشت کرنا پڑے گا،زراعت کو ٹھیک نہ کر سکے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، سری لنکا سے پاکستان کا تقابل مناسب نہیں ہے، پی ٹی آئی دورمیں گندم اور کھاد افغانستان میں سمگل ہوئی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ انرجی کرائسز بھی ہیں سی این جی بند ہے پٹرول پرسب سڈی دیکر اس کی قیمتوں کو برقراررکھا جارہاہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف اپنی نئی شرائط منوانے کے لیے زور ڈال رہا ہے ان حالات میں ن لیگ کی حکومت کو دیگرسیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا اور ملک کو مزید مہنگائی سے بچا کر ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا بلاشبہ کسی امتحان سے کم نہی اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اپنے سیاسی تجربہ کی بنیاد پر ان مشکلات پر قابو پا لے گی یا وہ بھی ناکامی کی دلدل میں پھنس کر تمام الزامات تحریک انصاف کی سابق حکومت پر ڈال کر بری الزمہ ہوجائے گی اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ ن لیگ کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے کیونکہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر بات کرنا آسان جبکہ عملی اقدات اور مسائل کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔سیاست سے ہٹ کر بات کی جائے تو موجودہ حکومت کچھ ڈری ہوئی سی ہے کچھ خوف کا شکار بھی ہے وہ عوام کو مہنگائی کو دلدل سے نکالنا چاہتی ہے اس کے لیے وہ کوشش بھی کررہی ہے اشد ضرورت کے باوجود پٹرول نہیں بڑھایا جارہا کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس سے مہنگائی بڑھے گی دوسری جانب سیاسی ساکھ بھی متاثر ہوگی جسے آئندہ الیکشن تک بہتر کرنا ہی ان کی اول ذمہ داری ہے اور اسی پر ان کے مستقبل کا بھی انحصار ہے مشکل حالات کے باوجود چینی آٹا گھی پٹرول پر سب سڈی دی جارہی ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر کافی حد تک قابو پایا گیا ہے مگر اسے بالکل ختم نہیں کیا جاسکا ، دوسری جانب آئی ایم ایف ہے جو اپنی کڑی شرائط کے منوانے کے بعد ہی امدادی پیکج دینے پر بضد ہے اس کی شرطوں میں ایک اہم شرط سب سڈی کاخاتمہ ہے ۔سیاسی طور پر بات کی جائے تو پی ڈی ایم ، پیپلز پارٹی چاہتی ہے الیکشن قبل از وقت ہوں ن لیگ چاہتی ہے گورنس کو کچھ بہتر کرکے الیکشن کی جانب جایا جائے ، عمران خان کے جلسوں نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے لوگ مہنگائی کو بھول پی ٹی آئی اور عمران خان کا راگ آلاپ رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ غلط ہیںیا صحح ایسی سیاسی صورتحال میں اگر قبل ازوقت الیکشن ہوں تو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کی پارٹی پوزیشن مضبوط ہو اور وہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلے اگر ایسا ہوتا ہے یا تو پی ٹی آئی کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑے گی یا کسی ایک صوبہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی یا پھر پی ٹی آئی ایک متحرک اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اس وقت کی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ، ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرتے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے نئی حکومت بناتے اقتدار کو مضبوط اور محفوظ بناتے اور پھر بیرونی طاقتوں کے خلاف صف آراء ہوتے تو ان کا وزن اور سیاسی اہمیت کچھ اور ہوتی ، انہوں نے سیاسی شعور اور حکومتی تجربہ کی کمی کے باعث سب کو اپنا دشمن بنا لیا اور اقتدار بھی چلا گیا ، بحر حال اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ،زمانے کے ساتھ ساتھ سیاست بھی اب کچھ تبدیل ہوگئی ہے دوستیاں دشمنیاں بدلتی ہیں صبح سیاست کچھ اور شام کو کچھ اور ہوتی ہے مفادات کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے ، مگر حضرت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں عروج کو زوال اور زوال کے بعد عروج نے آناہی ہوتا ہے بعض اوقات اس میں کچھ وقت بھی لگ جاتا ہے ، عوام کو بھی اپنے نمائندگان کے انتخاب میں ان کی اچھائیوں کو مدنظر رکھنا چاہیے سبزباغ و سراب کے دھوکے کو سمجھنا چاہیے وگرنہ ان کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔