یہ ملک تو ہم سب کا ہے!!!!!
میرے سامنے ٹیلیویژن ہے، ہر روز دیکھ رہا ہوتا ہوں مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسے ہو رہے ہیں۔ سب جگہ لوگ موجود ہیں۔ ان جلسوں میں تعداد کی طرف نہ بھی جائیں پھر بھی یہ ساری سیاسی جماعتیں پاکستان کی حقیقت ہیں، پرستاروں، پسند کرنے والوں، ووٹرز اور حمایت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ اور کمی ہوتی رہتی ہے اس لیے تعداد کے چکروں میں پڑنے کے بجائے حقائق کو سامنے رکھنا ہے۔ ایک طرف بلاول بھٹو زرداری جلسہ کر رہے ہیں، ایک طرف عمران خان جلسہ کر رہے ہیں، ایک طرف مریم نواز خطاب کر رہی ہیں۔ ان سب کے ساتھ اگر مولانا فضل الرحمن بھی کہیں جلسہ کر رہے ہوں، ایم کیو ایم بھی اپنے ووٹرز کو سڑکوں پر لے آئے، اے این پی بھی جلسے شروع کر دے، جماعت اسلامی بھی سڑکوں پر نکل آئے تو آپکو ہر جگہ ہی لوگ نظر آئیں گے پھر یہ کہنا مشکل ہو گا کہ آپ ان سب سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی سائیڈ لائن کر کے استحکام حاصل کر سکتے ہیں یا ایک یا دو مقبول جماعتوں کو دیوار سے لگا کر معیشت کو سنبھال سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہزاروں، لاکھوں یا چند کروڑ لوگوں کا ملک نہیں ہے یہ لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ اس کی سیاست کا اپنا ایک انداز ہے، یہاں کے حالات اور زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں، مختلف علاقائی سیاسی جماعتیں ہیں کئی قومی سطح کی سیاسی جماعتیں ہیں، علاقائی جماعتیں بھی بہت مضبوط اور طاقتور ہیں جبکہ قومی سطح کی سیاسی جماعتیں بھی عوامی سطح پر اچھی خاصی مقبول ہیں۔
جب میں ٹیلیویژن دیکھ رہا ہوں اور میرے سامنے تین قومی سیاسی جماعتیں جلسوں میں مصروف ہیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ سب ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن سب خدمت صرف اقتدار میں رہ کر ہی کرنے کے خواہشمند ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار بھی کسی طور حکومت سے کم نہیں ہوتا بلکہ عوامی مسائل پر سمجھوتا نہ کرنے والی، مضبوط، تعمیری تنقید اور قومی معاملات میں مثبت موقف اختیار کرنے والی اپوزیشن حکومت سے زیادہ مقبول اور نظام کو زیادہ مضبوط کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں رائج جمہوریت میں ملک و قوم کی خدمت صرف اور صرف حکومت میں رہ کر ہو سکتی ہے، احتساب صرف حکومت میں رہ کر ہو سکتا ہے، معیشت کی بہتری کیلئے بھی کام صرف اور صرف حکومت میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اپوزیشن میں جانا یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپوزیشن میں رہتے ہوئے اداروں اور اہم شخصیات کو نشانے پر رکھتی ہے حکومت ملنے کے بعد اس کا موقف بدل جاتا ہے اور پھر اس بیانیے کو پھیلانے کے لیے حکومت ختم ہونے والی جماعت جگہ لے لیتی ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ یہ سلسلہ کہیں تھمنے، رکنے یا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ذمہ داری اور تحمل مزاجی کب آئے گی، کیا کبھی ہم دیکھ سکیں گے کہ اپوزیشن میں جانے کے بعد بھی کوئی سیاسی جماعت ریاستی اداروں کے حوالے سے وہی موقف رکھے جو حکومت کرتے ہوئے تھا۔ کیا کوئی اس سنجیدگی اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟؟؟
قارئین کرام ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اس وقت حالات کچھ ایسے ہیں کہ ملک صرف اس وقت عزیز ہے، ادارے صرف اس وقت اچھے ہیں جب اقتدار آپ کے پاس ہے، اقتدار ختم ہوتے ہی بیانیہ بدل جاتا ہے جو کچھ ماضی قریب میں مسلم لیگ نون کر رہی تھی یا کہہ رہی تھی آج ویسے ہی بیانات پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں جب نون لیگ والے اداروں پر سوالات اٹھا رہے تھے تو پہ ٹی آئی اس کا دفاع کرتی تھی آج وہی کام پاکستان تحریکِ انصاف والے کر رہے ہیں تو مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر اداروں کے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی خدمت کے دعوے تو ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔
اب اگر کوئی پوچھے کہ ان حالات میں ہونے والے انتخابات کے بعد کیا منظر نامہ ہو گا تو یقین رکھیں کہ کچھ نیا نہیں ہو گا سب انتخابات کے بعد بھی سیاسی جماعتیں سڑکوں پر ہی ہوں گی کیونکہ ہارنے والے کبھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور یوں ملک کو بدستور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا رہے گا۔ سیاست دانوں کے لیے حکومت میں رہنا اہم ہے۔ ان کے لیے ملک سے زیادہ اقتدار کی اہمیت ہے اگر ایسا نہ ہو تو کہیں سے سیاسی انتہا پسندی کے خاتمے کا آغاز ہو، بدقسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔
آج انتخابات سولہ ہفتے، یا سولہ مہینے میں یا پھر غیر نمائندہ حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انتخابات کسی بھی وقت ہوں حالات بدلنے والے نہیں، مسلم لیگ نون نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے قبل از وقت انتخابات کا پیغام تو دیا ہے لیکن اس وقت ملک کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے اس میں کیا یہ بہتر نہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے مل کر غیر نمائندہ حکومت پر اتفاقِ رائے پیدا کریں، یہ طے کریں کہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے، عوامی جذبات کو بھڑکانے کیلئے الزامات کی سیاست کی طرف نہیں جائیں گے، غیر نمائندہ حکومت کے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام کے لیے اس حکومت کو انتخابی اصلاحات، احتسابی اصلاحات معاشی عدم استحکام کے خاتمے کا ہدف دیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے غیر ضروری سیاسی سرگرمیوں اور محاذ آرائی سے گریز کریں۔ گوکہ یہ مشکل کام ہے اور یقین رکھیں اس ایجنڈے پر کبھی اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ اقتدار کے خواہشمند کبھی اپنے سیاسی مخالف کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے یہ دہشت گردوں سے بات چیت کی تبلیغ تو کرتے ہیں لیکن سیاسی مخالفین سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، موجودہ حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو آگے آنا پڑے گا۔ یہ بھی یاد رکھیں آگے بڑھنے کیلئے اور ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کا یہ واحد اور پر امن راستہ ہیں جہاں سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو حالات مزید خراب تو ہو سکتے ہیں بہتری ہے امکانات کم ہیں۔ بار بار انتخابات، بار بار دھاندلی کے الزامات، بار بار عدالتوں کے چکر، بار بار سڑکوں کی سیاست، بار بار معاشی سازشیں، غیر ملکی سازشیں، سیاسی سازشیں یہ الزامات سننے کو ملتے رہیں گے۔
سیاسی قائدین کو سوچنا ہو گا کہ یہ ملک صرف ان کا نہیں ہے یا یہ ملک صرف ان کی حکمرانی کیلئے نہیں ہے یہ ملک ہم سب کا ہے اگر ہم نے اپنے حالات خود ٹھیک نہ کئے تو کوئی بھی ہمیں یوگنڈا، شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور سری لنکا بننے سے نہیں روک سکتا، ہمیں خوش فہمی میں رہنے کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔