پاکستان کی خارجہ پالیسی!۔۔ خدشات‘ مضمرات اور امکانات

کسی بھی ملک یک خارجہ پالیسی بذات خود مقصد نہیں ہوتی۔ یہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ وہ اہداف جو حکومتیں ملک کی بہتری کے لئے متعین کرتی ہیں۔ مفادات کی اس دوڑ میں جو بات پیش نظر ہوتی ہے۔ اسے (ENLIGHTEND SELF INTREST) کہا جاتا ہے۔ مروت‘ رواداری‘ ایثار‘ وہ اقدار نہیں جو ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ ایک دوست دوسرے دوست کی خاطر جان تک کی بازی لگا دیتا ہے۔ ملک ایسا نہیں کرتے۔ ہر قدم اٹھانے سے پہلے ’’نسبہ و نقد دو عالم‘‘ کی حقیقت سے آشکار ہونا پڑتا ہے۔
پاکستان کے قیام میں آتے ہی یہ بحث چلی نکلی کہ خارجہ پالیسی وضع کرتے وقت مندرجہ بالا اصولوں کو مدنظر رکھا جائے یا ایسی حکمت عملی نہ اپنائی جائے جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ کیا پاکستان (THEOCRATIC STATE) سے یا مسلم لبرل ڈیموکریٹک ریاست ‘ قائداعظم کی تقاریر کو اپنے مطلب کے معانی پہناے گئے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنی پالیسی تقریر میں کہا ’’ پاکستان بنانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اقوام عالم کے جم غفیر میں ایک اور قوم کا اضافہ کر دیا جائے۔ یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ اسلامی فکر‘ فلسفے اور طرز زندگی کا عملی مظاہرہ کیا جائے‘‘۔
اسی طرح مصر کے جمال ناصر کے عرب نیشنلزم کے پرچارک جمال عبدالناصر پر تنقید کرتے ہوئے حسین شہید سہروردی نے کہا تھا۔ ’’ اس خنانس کی رگوں میں اسلامی خون کی بجائے دریائے نیل کا گدلا پانی دوڑ رہا ہے‘‘ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ تمام اسلامی ممالک سے اخوت کا رشتہ جوڑا بالخصوص سعودی عرب کی سکیورٹی کا ذمہ لیا۔ کثیر تعداد میں اپنی افواج بھجوائیں۔ آئین میں بھی واضح طور پر لکھا گیا۔ کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنے گا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی دنیا دو ’’بلاکس‘‘ میں بٹ گئی۔ کمیونسٹ بلاک جس کا لیڈر روس تھا۔ مغربی بلاک جس کی قیادت امریکہ نے سنبھال رکھی تھی۔ حیران کن بات ہے کہ روس اور اہل مغرب نے ملکر دوسری عالمی جنگ لڑی اور جیتی تھی۔ جنگ کے فوراً بعد ہی مفادات کی جنگ شروع ہوگئی۔ روس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے ’’نیٹو کا وجود عمل میں آیا۔ اس کے بالمقابل روس نے ’’وارسا پیکٹ‘‘ بنایا۔ ان دنوں کمیونزم کا طولی بول رہا تھا۔ ایشیاء سرخ ہے کے نعرے لگ رہے تھے۔ چین کی شمولیت نے اسے مزید تقویت بخشی کمیونزم کے فلسفے اور نعرے میں بڑی جان تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ نظام زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گا۔ ایک بھوکا دوسرے بھوکے کو کیا دے گا اور کب تک دے سکے گا۔ جب تک مقابلہ نہ ہو ترقی نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ ایسا نظام ہے جس میں ہر شخص معاشرے کا غلام بن جاتا ہے نہ اپنی مرضی سے کاروبار کر سکتا ہے۔ نہ ڈھنگ کی نوکری مل سکتی ہے۔
چھوٹے ممالک کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ انہیں کون سے کیمپ میں شمولیت اختیار کرنی چاہئے۔ غیرجانبداری بھی مشکل ہوگئی کیونکہ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ جان فاسٹر ڈلس اسے گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔
اس تناظر میں نوازئیدہ مملکت کو فیصلہ کرنا تھا کہ انہیں کا جھکاؤ کس طرف سود مند رہے گا۔ دو وجوہ سے فصلہ کرنا آسان ہوگیا۔ ہماری خارجہ پالیسی India CENTRIC تھی۔ پاکستان تو بن گیا لیکن ہندوستان نے بوجوہ اسے کبھی بھی ذہنی طور پر تسلیم نہ کیا۔ ہندوؤں نے پہلے اس کے قیام میں رخنے ڈالے اور بعد میں استحکام میں روڑے اٹکائے۔ چونکہ ہندوستان کا’’غیرجانبداری کے باوصف جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ اس لئے امریکی معاہدوں SEATO اور CENTO میں پاکستان کی شمولیت ضروری ہوگئی۔ مالی امداد کے علاوہ فوجی سازو سامان کا حصول بھی آسان ہوگیا۔روس کی انڈیا کی طرف جھکاؤ کی منطق قابل فہم تھی۔ وہ کہتا تھا کہ یہ حساب کا بڑا آسان سا سوال ہے۔ ایک کے مقابلے میں پانچ لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا! پھر اس کی نظریں گوادرکے گرم پانیوں کی طرف تھیں۔ زاران روس کی جو خواہش تھی اس نے کبھی دم نہ توڑا اور وہ سینہ بہ سینہ کمیونسٹوں تک آن پہنچی تھی۔ افغانستان کو فتح کرنے کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کار فرماتھی۔ افغانیوں کی جرات ، ہمت اور پس پردہ امریکی امداد نے انکی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ اس میں پاکستان نے بھی خطرے کو منڈ لاتے ہوئے دیکھ کر بھر پور کردار ادا کیا۔ نتیجتاً روسیوں کو بے نیل ومرام واپس جانا پڑا۔ گوادر تک تو اس نے کیا پہنچنا تھا، اپنا و جود بھی قائم نہ رکھ سکا۔ وقتی طور پر ہی سہی، امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور بن گیا۔ (جاری)