مسائل کا فوری حل حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج
اس وقت حکومت کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے اقتصادی زبوں حالی ان میں سر فہرست ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے تقریباً چار سال کے عرصے میں معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا کہ اب کسی بھی حکومت کو استحکام پیدا کرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ موجودہ حکومت کے پاس ویسے بھی بہت کم وقت ہے۔ ان حالات میں مسلسل بگڑتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا یقینا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسی لیے وزیراعظم شہباز شریف یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی بھی طرح دوست ممالک کے تعاون سے معیشت کو سنبھالا جائے۔ معیشت کی بحالی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بھی جاری ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط اتنی کڑی ہیں کہ ان کا بوجھ جب عوام پر پڑے گا تو حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔
عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے ہی شہباز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری ایک بار پھر رد کردی ہے۔ اس اقدام سے وقتی طور پر عوام کو تو ریلیف مل جائے گا لیکن ایسے فیصلوں سے معیشت پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ سرکاری خزانے میں اتنا سرمایہ موجود نہیں ہے کہ حکومت سبسڈی کی مد میں بڑی رقم خرچ کرسکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے ان کا قلیل مدت میں حل فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے حکومت کو کئی تلخ فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔ اندریں حالات، حکومت کو جلد نئے انتخابات کرانے کے آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ نئی حکومت جب لمبی مدت کے لیے عوامی مینڈیٹ لے کر آئے گی تو اس کے لیے اقتصادی معاملات سے متعلق پالیسی بنانا اور تلخ فیصلے کرنا نسبتاً آسان ہوگا۔
اقتصادی مسائل سے متعلق بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا یہ کہنا درست ہے کہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے کیے وہ پورے کرنا مشکل ہے۔ مفتاح اسماعیل نے اتوار کو کی گئی پریس کانفرنس میں قومی معیشت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور 18 مئی کو آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ مذاکرات ناگریز ہیں کیونکہ سابقہ حکومت نے جن شرائط کو مان کر 2019ء میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج منظور کرایا تھا اب ان پر عمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے ہی گزشتہ چار برس کے دوران آئی ایم ایف کے مطالبات اور شرائط مان کر عوام پر مہنگائی کا اس قدر بوجھ ڈالا گیا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 2018ء کے مقابلے میں آج تقریباً تین گنا ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہے بھی تو اس کے پاؤں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی ایسی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں جنھیں اتار پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران 2013 ء سے 2018ء تک کی مسلم لیگ (نواز) کی حکومت اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دوران مہنگائی اور معاشی صورتحال کا جو نقشہ پیش کیا وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن عوام کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں، وہ تو بس یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے انھیں ریلیف کب اور کیسے ملے گا۔
پاکستان کہنے کو ایک زرعی ملک ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنی ضروریات کے مطابق زرعی اجناس پیدا نہیں کر پارہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان رواں مالی سال کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالرز کی زرعی مصنوعات درآمد کرے گا جن میں 4 ارب ڈالرز کا خوردنی تیل بھی شامل ہے۔ زرعی اجناس کی کم پیداوار کی بہت سی وجوہ ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ کوئی بھی حکومت ایک سال کی قلیل مدت میں ایسا کوئی جادو نہیں کرسکتی جس سے معیشت کو سہارا بھی مل جائے اور مہنگائی و بے روزگاری سمیت تمام قومی مسائل کا حل بھی مل جائے۔ حکومت اپنی طرف سے تو پوری کوشش کررہی ہے کہ وہ معاملات کو کسی طرح سدھار کی طرف لے آئے لیکن بگاڑ نے معیشت کے ہر پہلو اور ہر جہت کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ حکومت چاہ کر بھی استحکام پیدا نہیں کرسکتی۔
معاشی صورتحال، آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اور دیگر معاملات کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں سے مشاورت بھی کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشاورتی عمل کے دوران اتحادی جماعتیں ایسے کون سے فیصلوں پر اتفاق کرتی ہیں جن کی مدد سے معیشت کو سہارا دینا ممکن ہوسکتا ہے۔ عوام حکومتی مسائل سے آگاہ نہیں ہیں انھیں تو بس اس بات سے سروکار ہے کہ انھیں کیا ریلیف ملتا ہے۔ شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر پوری صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور اگر انھیں لگتا ہے کہ ایک سال کی قلیل مدت میں وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے جس سے معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی کو سہارا دیا جاسکے تو انھیں فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے کیونکہ عوام کسی بھی صورت مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔