’’مسلمانوں کا قتل عام،، کیا امریکہ خطے میں کوئی نیا کھیل رچانے والا ہے؟
8 مئی 2021 ء کو افغان دارالحکومت کابل میں لڑکیوں کے سکول کے باہر ہونے والے بم دھماکوں میں 80سے زیادہ طالبات کی شہادتوں نے پورے عالم اسلام اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ہرفرد کو اداس کر دیا۔ ایک بڑا دھماکہ کار میں نصب بم کے ذریعے عین چھٹی کے وقت اس وقت ہوا جب طالبات مرکزی دروازے سے باہر نکل رہی تھیں۔ آدھے منٹ کے وقفے سے مزید دو دھماکے ہوئے۔ فوری طور پر پچاس سے زیادہ شہادتوںکی خبر آئی اور دو سو سے زیادہ زخمی بتائے گئے چند گھنٹوں بعد مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 82 تک پہنچ گئی۔ شہید ہونے والی بچیوں کی عمر 6 سال سے 14 برس تک بتائی گئی۔ پھول جیسے بچوں کو نہ تو عالمی شاطرانہ سیاست سے کوئی غرض ہے نہ ہی ان کا سفاک قاتلوں سے کسی طرح کا جھگڑا ہے تو پھر کیوں ان کی زندگی کے چراغ گل کیے گئے؟
افغانستان پر گزشتہ 20 برسوں سے امریکہ کا قبضہ ہے جو افغان عوام کو القاعدہ سے نجات دلانے کا نعرہ لگا کر اپنے 50 سے زیادہ اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا ۔قبضہ مستحکم کرنے کے بعد امریکہ نے عراق اور پھر لیبیاء کو تباہ کرنے کیلئے افغانستان کو بطور ’’بیس کیمپ،، استعمال کیا ،یہ دونوں اسلامی ممالک برباد ہوئے تو عراق کی کوکھ سے داعش نامی دہشتگرد تنظیم کا جنم ہوا جس نے شام کواپنی لپیٹ میں لیا اور قتل و غارت گری کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا۔ داعش نے اسلامی خلافت کے نام پر صرف اسلامی ریاستوں کو نیست و نابود کرنے جیسے نعرے لگائے اور مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان کی گردنیں کاٹیں یا انہیں پنجروں میں بند کرکے زندہ جلایا۔ نہ تو انہوں نے امریکہ و مغربی ممالک کے شام میں ٹھکانوں کو نشانہ بنایا نہ ہی اسرائیل و یہودی ان کا ہدف رہے اور پھر مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اطلاعات منظر عام پر آئیں کے داعش والوں کو افغانستان منتقل کر دیا گیا ہے۔
2016 ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے دوران ریپلیکن جماعت کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے سرعام انکشاف کیا کہ امریکہ داعش کا خالق ہے اور القاعدہ کا جنم بھی امریکی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ القاعدہ کی تشکیل کے حوالے سے اس نے انتخابات میں اپنی حریف اور ڈیموکریٹک جماعت کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے بیانات و بطور امریکی وزیر خارجہ انٹرویوز کا حوالہ دیا ۔لیکن زمینی حقائق بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں سے دنیا میں صرف مسلمان تسلسل کے ساتھ مغربی استعماری قوتوں کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ اگر ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی مسلمان ہی امریکہ، اس کے لے پالک اسرائیل اور دیگر امریکی مغربی اتحادی ممالک کی طرف سے منظم قتل و غارت گری کاہدف رہے ہیں۔ امریکہ جس طرح تباہی لے کر افغانستان پرنازل ہوا 20 برسوں بعد افغانستان سے اس کی رخصتی بھی مظلوم و بے قصور افغانیوں کے لیے تباہی لیے نئی صبح کے طور پر طلوع ہو رہی ہے۔ ان بیس برسوں میں امریکیوں اور اس کے اتحادیوں نے امریکیوں کے کتنے وسائل ہڑپ کیے زیر زمین قدرتی معدنیات سے کتنی لوٹ مار کی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اگر امریکہ دو دہائیوں تک افغانستان میں سیاہ و سفید کا مالک رہنے کے باوجود خود کو 8 مئی کو کابل میں لڑکیوں کے سکول پر کیے جانے والے حملے سے بری الذمہ قرار دے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ امریکہ افغانیوں کو یوں قتل و غارت گری کا تحفہ دے کر بلاوجہ یہاں سے رخصت نہیں ہو رہا۔ یقیناً اس کے مقاصد تاحال دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن فلسطین میں اچانک نہتے فلسطینی بچوں و مرد و خواتین پر ٹوٹ پڑنے والی اسرائیلی فوج کچھ اور ہی منظر پیش کررہی ہے۔7 مئی 2021 ء کو مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجیوں کا داخل ہو کر مغرب کے وقت افطاری میں مصروف فلسطینیوں پر تشدد حیران کن ہی نہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔
ماہ رمضان میںہرسال مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ رمضان کے رواں مہینے میں بھی حسب روایت فلسطینی جوق در جوق نماز کے لئے مسجد اقصیٰ پہنچے ان میں بچے ،بوڑھے، مرد و خواتین سب شامل رہے ۔ مسجد اقصیٰ میں آخری جمعہ کے روز افطاری کے وقت نمازی بڑی تعداد میں موجود تھے جب 200 سے زیادہ مسلح اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور افطاری میں مصروف فلسطینیوں پر حملہ آور ہوگئے۔
فلسطینی اس طرح کی صورتحال کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کا احتجاج مسجد اقصیٰ سے باہر وسیع علاقے تک پھیل گیا۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ افطاری کے بعد ہزاروں فلسطینی یروشلم کے علاقے SHEIKH JARRAH میں آٹھ فلسطینی خاندانوں کو ان کے قدیمی گھروں سے نکال کر وہاں قوم پرست یہودیوں کے قبضہ کیخلاف احتجاج کا ارادہ رکھتے تھے۔ جس سے روکنے کے لئے انہیں احتجاج سے قبل قوت استعمال کرنا پڑی۔ رات بھر یروشلم میں فلسطینیوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ جمعہ کی شام کو مسجد اقصیٰ میں 10 بچیوں سمیت 150 سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع پر احتجاج کا سلسلہ غزہ کے علاوہ مغربی کنارے تک پھیل گیا ۔ ہفتے اور اتوار کے روز بھی فلسطینیوں کی طرف سے پتھرائو کے جواب میںصیہونی پولیس کی طرف سے براہ راست ربڑ کی گولیاں برسانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب قوم پرست یہودی مرد و خواتین نے بھی پولیس کے ہمراہ فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیئے۔ سوموار کے روز یہ مناظر پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے جب مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کو آگ لگا دی گئی۔ آگ کے شعلے بلند ہوئے تو قوم پرست یہودیوں نے خوشی کے مارے رقص شروع کر دیا اور مسلمانوں کے قبل اول میں لگی آگ کو دیکھ کر جشن منایا۔
اب اس تحریر کے لکھنے تک اسرائیل ایئرفورس اور زمین پر توپ خانہ اور ٹینکوں کی طرف بمباری اور گولہ باری جاری ہے ۔ غزہ میں 700سے زیادہ عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا ہے ان میں 5 کثیرالمنزلہ عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں36 بچوں سمیت 150سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید کیے جاچکے ہیں۔ جواباً حماس کی طرف سے فائر کیے جانے والے راکٹوں کی وجہ سے بھارتی مرد و خاتون سمیت 20 کے قریب یہودیوں کے ہلاک اور درجنوں یہودیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے فوج غزہ میں داخل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی تہذیب یافتہ دنیا اور اقوام متحدہ کا طرز عمل ماضی کی طرح منافقت پر مبنی ہے۔ ان کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے کی بجائے اسرائیل و فلسطینیوں سے صبر کا مظاہرہ کرنے اور پر امن رہنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جولائی 2014 ء کے آخر میں یروشلم میں فلسطینیوں کے احتجاجی ریلیوں پر یہودیوں کے حملوں نے اسرائیلی فوج اور غزہ میں فلسطینیوںکے درمیان جنگ کی صورتحال اختیار کرلی تھی دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں گیارہ سو سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی کردیئے گئے تھے اسرائیلی بمباری سے 100 کے قریب رہائشی عمارتیں اور درجن بھر تعلیمی ادارے بھی زمین بوس کردیئے گئے ۔ اس وقت 2021 ء میں بھی مسلمان باہمی طور پر اختلافات اور مزاجاً تماش بینی و عیاشی کا شکار ہیں۔
مسلمانوں کا برسراقتدار طبقہ اپنے ملکوں سے قومی خزانہ لوٹ کر مغربی ممالک کے بینکوں میں محفوظ کرنے جیسے طریقہ کار کی بدولت اس قابل نہیں کہ اسرائیلی جارحیت پر مضبوط اور قابل عمل ردعمل کا اظہار کر سکے۔ پاکستان و ایران ترکی کی حکومتوں نے شدیدالفاظ میں اسرائیل کی مذمت کی ہے ترکی کے طیب اردگان نے تو اسرائیل کو دہشت گرد ریاست تک قرار دے دیا ہے لیکن اسی طرح کے بیانات سے اسرائیل کو فرق پڑنے والا نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان میں دہشتگردی کی نئی لہر اور فلسطینیوں پر ٹوٹ پڑنے والی قیادت کی آڑ میں امریکہ کے عزائم کب اور کس مشکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔کیا افغانستان و فلسطین میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والی افتادکی وجہ سعودی عرب و ایران کے درمیان رابطوں کی بحالی‘ پاکستان‘ ایران‘ سعودی عرب و ترکی کا بنتا اتحاد ہے یا امریکہ کی روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی؟ وجہ کچھ بھی ہو امریکی عزائم جلد ظاہر ہو جائیں گے۔