جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں عوام میں بے چینی کی لہر
شہر اور گردونواح میں ڈکیتی کی نہ رکنے والی وارداتوں کا چرچا عام تھا شہری اور دیہی علاقے کے لوگ پریشان تھے واردات کرنے والے چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے تھے سفید رنگ کی کار ضلع خانیوال کی پولیس کے لئے چیلنج بنی ہوئی تھی۔درجنوں لوگ سڑکوں پر لٹتے اور خاموش ہوجاتے کراچی صادق آباد سے چلنے والے ٹرالر کو جب خانیوال کے علاقے میں لوٹ لیا جاتا تو کس میں اتنی ہمت کہ وہ پولیس اسٹیشن جائیں پہلے درخواست دیں پھر مقدمہ کے اندراج کا انتظار کریں مقدمہ کے اندراج کے بعد پولیس اسٹیشن کے چکر لگائیں درجنوں وارداتیں اسے لیے رپورٹ نہیں ہوتیں کہ راستہ کے مسافر اس سسٹم کے ہاٹھوں مزید خراب نہیں ہونا چاہتے۔
مگر کسے معلوم تھا کہ اس گینگ کا خاتمہ اللہ نے لوگوں کے ہاتھوں لکھ دیا ہے پتوکی سے جانور خریدنے کے لئے ڈھرگی جانے والے تیرہ بیوپاری اپنی گاڑی پر ڈھرگی جارہے تھے جیسے ہی وہ خانیوال کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈاکوؤں نے اْن کی گاڑی کو گھیر لیا اور ڈرائیور سمیت تین افراد کو سفید کار میں بٹھادیا دوڈاکوؤں گاڑی چلانے لگے اور دو مسلح ڈاکو گاڑی کے پیچھے بیوپاریوں پر پہرہ دینے لگے ڈاکوؤں نے 87/10Rکے قریب سسنان جگہ دیکھ کر لوٹ مار شروع کردی اور بیوپاری سے رقم چھین لی ایک اندازے کے مطابق ان کے پاس70لاکھ روپے تھے اسی دوران چلتی گاڑی سے ایک بیوپاری نے چھلانگ لگادی اور سڑک سے ملحقہ کھیتوں میں جاگرا جس نے بعد میں موٹروے پولیس کی گاڑی کو روک کر مدد مانگی اور واقعہ سے متعلق آگاہ کیا دوسری طرف ڈاکو لوٹ مار میں مصرو ف تھے تمام بیوپاریوں سے رقم چھین لی تھوڑی دیر بعد مزید رقم کا تقاضا کیا کہ رقم کم ہے ہمیں زیادہ کی اطلاع ہے اور تشدد شروع کردیا گاڑی میں سوار بیوپاری آپس میں رشتہ دار تھے تھوڑی دیر تک تو وہ ڈاکوؤں کی جانب سے کیا گیا مسلسل تشدد سہتے رہے ۔
پھر ان پر چاقوں سے حملہ آوار ہوگئے چلتی گاڑی کے پیچھے فلمی سین شروع ہوگیا گاڑی کے آگے بیٹھے ڈاکو جو گاڑی چلارہے تھے گاڑی تیز بھگا دی مگر بیوپاریوں نے لوٹ مار کرنے والے دونو ں ڈاکوؤں کو گھیر لیا ان سے ان کا اسلحہ چھین کرفائرنگ شروع کردی دونوں ڈاکو شہباز، ذاکر گاڑی میں ہی کیفرکردار کو پہنچ گئے پھر چلتی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ڈاکوؤں پر حملہ آوار ہوگئے انہیں گاڑی روکنے پر مجبور کردیا اور ان پر فائرنگ شروع کردی جس سے دونوں ڈاکو اعجاز اور ذوالفقار زخمی ہوگئے اس کے بعد عوام اکٹھی ہوگئی اور انہوں نے بھاگتے ہوئے زخمی ڈاکوؤں کو پکڑ لیا واردات کے شروع میں سفید کار پر بیوپاریوں کو یرغمال بناکر بھاگنے والے دو ڈاکوؤں نے دو گھنٹہ کے بعد تینوں بیوپاریوں کو 7لاکھ روپے چھین کر کار سے بھگادیا اگر انہیں زرا سا بھی شک ہوجاتا کہ ان کے دو ڈاکو ساتھی مارے اور دو پکڑے گئے ہیں تو تینوں کو مارے جانے کا خدشہ تھا واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ڈی پی ا و خانیوال محمدعلی وسیم بھی موقع پر پہنچ گئے پہلے تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ مرنے والے اور بچنے والے دونوں میں سے واردات کرنے والے کون ہیں۔
تاہم جب صورتحال واضح ہوئی تو حقائق سے بے خبر ڈی پی او خانیوال محمد علی وسیم نے ڈاکوؤں کے مرنے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور رات گئے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی جس میں ڈی پی او نے اس واقعہ کو پولیس مقابلہ قرار دے دیا مگر جب بیوپاریوں میں سے ایک بیوپاری کی واقعہ کے حقائق کے عین مطابق ویڈیو وائر ل ہوئی تو پولیس کو سی پی او کے بیان کے برعکس مقدمہ درج کرنا پڑا جس سے پولیس کی بڑی جگ ہنسائی ہوئی۔عوام کی جان ومال کے تحفظ میں ناکام مقامی پولیس کو سوشل میڈیا پر وائرل ڈی پی وا کی ویڈیو پولیس کی کارکردگی پر مزید سوالیہ نشان لگاگئی مرنے والے اور زخمی ڈاکوؤں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیاگیا پکڑنے جانے والے ڈاکوؤں سے تفتیش کا آغاز ہوا تو علم ہوا کہ یہ تو بڑا خطرناک بین الصوبائی گینگ ہے جس نے ساہیوال،میاں چنوں، اور پنجاب کے مختلف شہروں میں درجنوں وارداتیں کی ہوئی ہیں زخمی ڈاکوؤں کے متعلق انکشاف ہوا کہ ان کی دوستی جیل میں ہوئی مختلف وارداتوں میں گرفتار یہ مجرم جیل میں دوست بنے اور اس طرح گینگ کی تشکیل ہوئی پولیس ابھی اس گینگ کے مفرور ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لئے کوشاں تھی کہ چند ہی روز بعد سرائے سدھو میں بھی موٹرسائیکل سوار باپ بیٹا کو ڈاکوؤں نے گھیرلیا اور مذاحمت پر فائرنگ شروع کردی جس کے نیتجے میں باپ ذوالفقار گولی لگنے سے جاں بحق ہوگیا اور ڈاکو موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے یہ واردات بھی پولیس کیلئے چیلنج سے کم نہیں عوام نے تو اپنا حق ادا کیا مگر پولیس مفرور ڈاکووں کو گرفتار کرنے میں مسلسل ناکام نظر آتی ہے۔
ماضی میں خانیوال تعنیات رہنے والے ڈی پی او کامران خان کے دور کو ضلع خانیوال کی عوام کبھی نہیں بھولے گی جب ان کی کمان میں شورکورٹ کے علاقوں تک آپریشن کیا گیا اور ڈاکووں کو ان کی کمین گاہوں سے نکال کر کیفر کردار تک پہنچایا گیاآج عوام ان جیسے دلیر افسر کی راہ تک رہی ہے ۔شہر ی آبادی ہو یا دیہی علاقے لوگ وارداتوں سے بہت زیادہ تنگ ہیں بازاروں میں پولیس شاپ سکیورٹی آرڈیننس کا سہارا لے کر تاجروں کو گن مین رکھنے پر مجبور کرکے بری ذمہ ہوجاتی ہے مگر پر امن علاقے میں بڑھتی ہوئی وارداتیں ضلع خانیوال کی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں نواحی علاقہ شام کوٹ میں بھی کچھ ہی عرصہ قبل ایک ڈکیتی کی واردات کے دوران ڈاکووں کولوگوں نے گھیر ا دے کر پکڑکر پولیس کے حوالہ کیا وارداتوں سے تنگ عوام نے ڈاکوؤں سے نبردآز ماہونے کا خود فیصلہ کرلیا ہے پولیس کلچر تبدیلی کا نعرہ خانیوال کے تھانوں میں درج جھوٹے مقدمات کی نظر ہوگیا ہے جھوٹے مقدمات کا اندراج ماضی میں بھی ہوتے تھے مگر نان سٹاپ جھوٹے مقدمات کا اندراج شائد پہلے کبھی نہ تھا مدعی اور ملزم دونوں تفتیشی افسران کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں موجودہ حالات میں تبدیلی صرف ایک نظر آرہی ہے کہ پولیس کے افسران روزانہ کی بنیاد پر اپنی کارکردگی سے متعلق جھوٹے قصے سوشل میڈیا پر وائرل کرکے سوشل میڈیا پر ہی واہ واہ کی داد سمیٹ کر لمبی تان کر سوجاتے ہیں ۔خانیوال کے عوام وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خانیوال میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا فوری نوٹس لیں تاکہ پولیس کلچر میں تبدیلی کے نعرہ کوعملی جامہ پہنایا جاسکے۔