پاکستان پرامن افغانستان کا سب سے زیادہ متمنی ہے
پاکستان طالبان کی اقتدار میں واپسی نہیں چاہتا‘ افغان صدر کی درفنطنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان، جس کو کابل طویل عرصہ سے طالبان کے حامی کے طور پر دیکھتا رہا ہے، اس گروپ کے پھر سے اقتدار میں آنے کے حق میں نہیں ہے۔ افغانستان کی انتظامیہ میں تحفظات بڑھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ کے تمام فوجیوں کی واپسی ستمبر تک متوقع ہے۔ جس کے بعد ملک طالبان کے ٹیک اوور کیلئے آسان ہو سکتا ہے۔ جن کو امریکی فوج کی قیادت میں طاقت سے نکالا گیا تھا۔ اشرف غنی کا بیان پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کابل کے دورے کے چند روز بعد سامنے آیاہے۔ عید الفطر کی نماز کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان کی فوج نے واضح طور پر کہا ہے کہ طالبان کی واپسی اسکے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کا مطلب پورے خطے میں امن اور استحکام کا ہونا ہے، پاکستان کے آرمی چیف نے افغان حکومت کیلئے حمایت کا اظہار کیا۔
افغانستان میں کس کی حکومت ہے اور کس طرح کوئی حکومت میں آتا ہے‘ اس سے پاکستان کو کیا غرض یا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو خطے اور اپنے ہاں امن سے سروکار ہے جو آج افغانستان کے امن اور اسکے استحکام پر منحصر ہے۔ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کو افغانستان سمیت مضبوط و مستحکم اور خودمختار دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے اشرف غنی کے بقول افغان حکومت کیلئے حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکی یلغار سے قبل افغانستان میں طالبان اقتدار میں تھے تو پاکستان اس حکومت کا حامی تھا۔ امریکہ افغانستان سے انخلاء کررہا ہے۔ اس طرف سے ابھی تک کوئی واضح سیاسی روڈمیپ نہیں دیا گیا۔ امن معاہدے کے مطابق افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں معاملات انٹرا افغان مذاکرات میں طے ہونے ہیں جن کے متعدد ادوار ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں بھی ایک اور مذاکراتی دور ہوا جس میں افغان حکومت کے مطابق مذاکراتی عمل تیز کرنے پر بات ہوئی۔ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت سے مذاکرات جاری رہنے پر اتفاق ہوا۔ طالبان اور افغان حکومت کے مابین ہونیوالے مذاکرات کی امریکہ کے انخلاء کے دوران کلیدی کامیابی کی امید کم ہی ہے۔ طالبان کو کیسے شریک اقتدار کرنا ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ اس کا بہترین حل تو انتخابات ہیں جن کا اہتمام دو تین ماہ میں ممکن نظر نہیں آتا۔ آج کی حکومت اور طالبان انتخابات پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ افغان امن عمل میں مثالی پیشرفت ہوگی۔ طالبان اور اشرف غنی انتظامیہ کسی پرامن حل پر متفق نہیں ہوتے تو افغانستان میں امن کے قیام کی امید نقش برآب ثابت ہو سکتی ہے۔ پھر جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی صورتحال ہوگی۔ امریکہ کو اپنے دیئے گئے ٹائم فریم کے اندر اقتدار کی پرامن منتقلی یقینی بنانا چاہیے تھی۔ کل افغانستان میں کسی بھی طریقے سے نئی حکومت بنتی ہے تو اشرف غنی بتائیں پڑوسی اور خطے کے ممالک اسے کیوں تسلیم نہیں کرینگے؟
افغانستان میں شورش سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ نوے ہزار کے قریب پاکستانی اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ فورسز کے شہداء کی تعداد سات ہزار ہے۔ آج پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور ڈرگس معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔ یہ سب افغانستان کی بدامنی کی دین ہے۔ بھارت نے پاکستان کو دہشت گردی کی تجربہ گاہ بھی افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے ہی بنایا ہے۔ پاکستان ان خرافات سے نجات کیلئے بھی افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا متمنی ہے۔ امریکہ ہر صورت افغانستان سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور ایک بار پھر افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ آج کے افغان حکمرانوں کو اپنی طاقت کا احساس اور اپنی اوقات کا ادراک ہے۔ انکے اقتدار کے طوطے کی جان امریکہ کی افغانستان میں موجودگی میں ہے۔ اس لئے انکی کوشش رہی ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی طرح افغانستان میں موجود رہ کر انکے اقتدار کی ڈھال بنا رہے۔ ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ انکی طرف سے امریکہ طالبان مذاکرات اور بعدازاں امن معاہدے کی شدید مخالفت اور سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ طالبان نے تمام افغان قیدی رہا کر دیئے جبکہ افغان حکومت نے ٹال مٹول کی۔ 26 رمضان المبارک کو کابل میں سکول پر خوفناک حملہ کیا گیا جس میں 70 افراد شہید ہوئے اور ڈیڑھ سو زخمی ہوئے جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔ اشرف غنی نے بغیر تاخیر اور تحقیق الزام طالبان پر لگایا جبکہ طالبان اسے داعش کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ داعش کے ساتھ امریکہ کے رابطوں کے بارے میں طالبان ترجمان سہیل شاہین کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے۔ امریکہ کے انخلاء کے بعد افغانستان میں کسی نہ کسی طرح عمل دخل برقرار رکھنے کی خواہش کی جھلک بھی نظر آجاتی ہے۔ عید کے دوسرے روز کابل میں مسجد میں دھماکے سے 12 نمازی شہید ہوگئے۔ اس حملے کی بھی طالبان نے مذمت کی ہے جبکہ حکمران ٹولے کی انگلیاں طالبان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ یہ حملہ بھی امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور امریکہ کی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔
افغانستان میں ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں امریکہ کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہیں۔ اسکے انخلاء کے بعد افغانستان کی سرزمین خون سے رنگین ہو سکتی ہے‘ لہٰذا امریکہ کو افغانستان سے جانے سے قبل کوئی مستحکم لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ اسکے جانے کے بعد افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بحال ہو سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ امن مذاکرات کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جائے جس کیلئے فریقین کے مابین اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔