پیر ‘ 5؍ شوال 1442ھ‘ 17؍مئی 2021ء
فرانس میں اسرائیل کیخلاف احتجاج پر پابندی لگا دی گئی
کہاں حکومت فرانس کے وہ دعوے کہ فرانس ایک آزاد جمہوری ملک ہے جہاں ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ فرانس میں کسی کے اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ توہین انبیاء ہو یا توہین مذاہب وہاں ہر ایک ناپاک پلید کو زبانی کلامی ہی نہیں تحریری طور پر اور عملی طور پر بھی اس کی اجازت ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ حکومت اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتی چاہے پوری دنیا اس کیخلاف سراپا احتجاج ہو۔ جب اتنی آزادی سب کو حاصل ہے تو پھر یہ فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی جلسے اور جلوسوں پر پابندی کس قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔ لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے تو جو لوگ فلسطین کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں انہیں بھی نہ روکیں۔ آخر کئی لوگ اسرائیل کے جھنڈے اٹھائے بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ یہ دوغلی پالیسی فرانس کی منافقت کو کھل کر ظاہر کرتی ہے کہ وہاں آزادی اظہار کا مطلب صرف اور صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہے۔ ان کو زچ کرنا ہے کبھی حجاب کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر کبھی قرآن کی کبھی انبیاء کی توہین کے عنوان سے انہیں مشتعل کرنا ہے۔ آج ذرا سا اسرائیل کی بدترین جارحیت کے خلاف مسلمانوں نے ہی نہیں خود سینکڑوں فرانسیسی انصاف پسند لوگوں نے احتجاج کیا کیا فرانس کی حکومت سے برداشت نہیں ہورہا۔ اب تو اسے اپنی دوغلی اظہار رائے کی آزادی کا نقاب اپنے چہرے سے اتارنا چاہئے۔ یہ جھوٹ اور منافقت ہی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل جیسے درندے کو فلسطین اور بیت المقدس میں تباہی پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے…
٭٭٭٭٭
چودھری نثار علی کے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کی اطلاعات غلط ہیں: ترجمان
اب معلوم نہیں چودھری نثار کے ترجمان کی بات پر یقین کریں یا نہیں ورنہ اس وقت تو چودھری جی کے سیاسی ستارے حرکت کرتے نظر آرہے ہیں۔ بقول چچا غالب …
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
سو اب ناں ناں ناں کے شور میں اچانک اگر پتہ چلے کہ ہاں ہاں ہاں ہوگئی تو پھر کیا ہوگا۔ خبر گرم ہے کہ ایک مخصوص مدت تک حلف نہ اٹھانے والے ارکان اسمبلی کی رکنیت منسوخ کردی جائے گی۔ اب اگر ایسا ہوا تو پھر ترجمان کی ساری ترجمانی جائے گی گھاس چرنے۔ اگر رکنیت کی منسوخی کا قانون آگیا تو پھر اسحاق ڈار اور چودھری نثار دونوں فارغ ہوجائیں گے۔ تین سال سے وہ حلف نہیں اٹھا رہے تو اب قومی اسمبلی کو بھی اپنی رکنیت کا بوجھ ان کے کاندھوں سے اتار دینا چاہئے۔ آخر کب تک وہ یہ بوجھ اٹھاتے پھریں گے۔ اس وقت چودھری جی کے میاں شہبازشریف کے ساتھ خفیہ رابطوں یا مہربانوں کے توسط سے سلسلہ جنبانی کی خبریں بھی عام ہیں۔ اب چاہے چودھری جی کے ترجمان اس بارے میں کہتے پھریںکہ یہ سب خبریں بھی غلط ہیں۔ ان باتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو واقعی نثار علی خان سیاست میں اپنی موجودگی ثابت کرنا چاہتے ہیں یا پھر یہ کہ ان کے مربی ایک بار پھر ان کی سیاست کی مردہ گھوڑے میں جان ڈالنا چاہتے۔ بہرحال جو بھی ہو اس سے اب کچھ نہیں ہونا۔ بعض اوقات تاخیر کے باعث بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ اب خواہ کوئی کچھ بھی کہے مگر ن لیگ چھوڑنا اور پی ٹی آئی میں شامل نہ ہونے کے فیصلوں کا خمیازہ تو بہرحال خود چودھری صاحب کو ہی بھگتنا ہوگا۔ ترجمان چاہے جو کچھ بھی کہیںمستند تو وہی ہوگا جو چودھری صاحب فرمائیں گے۔
٭٭٭٭٭
ملک بھر میں ٹرانسپورٹ بحال، بازار کھل گئے
کرونا کی وجہ سے سمارٹ لاک ڈائون برقرار رکھتے ہوئے حکومت نے یہ ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کہ شہروں کے اندر اور صوبوں کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ کو 50 فیصد مسافروں کے ساتھ بحال کردیا ہے۔ اسی طرح ریلوے بھی 70 فیصد گنجائش کے ساتھ چلے گی۔ سرکاری و نجی دفاتر میں 50 فیصد حاضری کی اجازت دے دی ہے۔ یوں ملک بھر میں کاروبار حیات ایک بار پھر حفاظتی اقدامات کے ساتھ بحال ہورہا ہے۔ بازار اور تجارتی مراکز مقررہ اوقات میں کھلیں گے جہاں ماسک اور فاصلے کی پابندی لازمی کرائی جائے گی۔ سو فیصد نہ سہی چلو 50 فیصد ہی سہی زندگی بحال تو ہورہی ہے۔ عوام اگر حکومتی ایس او پیز پر ایمانداری سے عمل کریں ماسک پہنیں، فاصلہ برقرار رکھیں اور بلاجواز باہر نہ نکلیں تو حالات مزید بہتر ہوسکتے ہیں۔ عید سے قبل جو لاک ڈائون لگا اس کی وجہ سے عید پر ملک بھر میں کرونا کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی مگر عید کے دو تین ایام میں جو رش بازاروں میں لگا اس کی وجہ سے کرونا کی شرح میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس جان لیوا وبا سے اگر بچنا ہے تو پھر ایس او پیز پر بہرحال عمل کرنا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے ورنہ پھر اگر حکومت ڈنڈا سنبھال کر میدان میں آگئی اور مکمل لاک ڈائون لگا تو لگ پتہ جائے گا۔ اس لئے مکمل گھروں میں محصور ہوکر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ہم حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے سمارٹ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھائیں اور حکومت کو بھی مشکل میں نہ ڈالیں۔
٭٭٭٭٭
معروف قلمکار فاروق قیصر عرف انکل سرگم اسلام آباد میں سپردخاک
انسان مر جاتے ہیں ان کے جسم فنا ہوجاتے ہیں مگر انہوں نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے۔ فاروق قیصر بھی ایک ایسے ہی انسان تھے جن کو موت نے ہم سے چھین لیا مگر ان کی قلم کاریاں اور جملوں کی کاٹ سدا یاد رہے گی۔ وہ کمال کے باذوق مزاح نگار تھے جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔ ادبی باریکیوں سے واقف تھے، ان کے مزاح میں پھکڑ پن نہیں تھا۔ ان کے مزاحیہ اور طنزیہ جملے ذہن پر گراں نہیں گزرتے تھے وہ ہنستے مسکراتے انکل سرگم کے منہ سے ایسے جملے کہہ جاتے تھے جو اپنے اندر پوری کہانی بیان کردیتے تھے۔ کارٹون ہوں یا ٹی وی پروگرام ہر چیز ناپ تول کر لکھی جاتی ہے۔ جو جی میں کہنے کی مکمل اجازت نہیں ہوتی۔ فاروق قیصر نے انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے کرداروں کو عوام کے جذبات کا نمائندہ بنا دیا۔ یہ دونوں لوگوں کی محرومیاں ، پریشانیاں اس انداز میں بیان کرتے کہ پڑھنے اور دیکھنے والے مسکرا اٹھتے ، قہقہے لگاتے۔ کیا ان کے علاوہ اب کوئی اور کہیں ہے۔ ’’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ انکل سرگم اور ماسی مصیبتے ان کا نام زندہ رکھنے کیلئے کافی ہیں۔ وہ ایک بڑے لکھاری تھے جو اپنے حصے کا کام کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ خدا ان کے لواحقین کو صبروجمیل دے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔