مسئلہ فلسطین : تاریخ اور آج کی تلخ حقیقت
فلسطین میں اسرائیل کی ایما پر پیدا ہونے والا حالیہ تنازعہ اپریل کے وسط سے ہونیوالے چھوٹے بڑے واقعات سے شروع ہو کر اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ۷ مئی کو اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرتے فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں درجنوں نمازی زخمی ہو گئے۔ اگلے دن ، جب وہاں لیلیٰ القدر تھی، اسرائیل نے ناکہ بندی کر کے مسلمانوں کا داخلہ مسجد الاقصیٰ میں بند کر دیا۔ اس سے اگلے روز بھی نمازیوں پر حملے جاری رہے۔ دس مئی کو اسرائیلی فورسز نے ایک اور حملہ کیا اور اس مقدس مسجد کے بڑے داخلی دروازے پرقابض ہو گئے ۔یاد رہے کہ یہ وہ روز تھا جب اسرائیلی1967 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں ’’ یوم یروشلم‘‘ مناتے ہیں۔ حماس اور اسکی ساتھی تنظیموں نے اس صورتحال پر احتجاج کیا اور اسرائیل کو الٹی میٹم دیا کہ وہ مسجد الاقصیٰ اور کچھ دیگر مسلم علاقوں سے اپنا ناجائز تسلط فوری طور پر ختم کرے۔ جب اسرائیلی جارحیت جاری رہی تو حماس نے اسرائیلی ٹھکانوں پر راکٹوں سے حملہ کر دیا اور جواب میں اسرائیل نے حماس کیخلاف غزہ میں فضائی حملے شروع کر دیے۔ خبریں آ رہی ہیںکہ اسرائیل اب حماس کیخلاف بڑے زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
اس صورتحال میں اب کی بار حماس نے اپنی حکمت عملی میں ایک سیاسی تبدیلی کی ہے۔اس سے قبل جب بھی اسرائیل اور حماس کے مابین کوئی تنازعہ ہوتا تھا تو اس کا محرک غزہ کا علاقہ ہوتا تھا۔ لیکن اس بار حماس نے جو مطالبات پیش کئے ہیں ان میں غزہ سے متعلق کوئی مطالبہ کرنے کی بجائے حماس کے مطالبے مسجد الاقصیٰ میں عبادت کی آزادی، متنازعہ علاقوں سے مسلمانوں کا انخلا روکنا اور اس تنازعہ کے دوران جتنے مسلمان قیدی بنائے گئے ہیں ، انکی آزادی کے ہیں۔ یعنی حماس اس بار غزہ کے علاقے کی تنظیم کی بجائے، یروشلم اور تمام فلسطین کی نمائندہ تنظیم بن کر ابھرنے کی کوشش میں ہے۔ ’’اسلامی دنیا‘‘ نے امید کیمطابق اس تمام صورتحال پر بیان بازی کرنے کی ’’ زحمت ‘‘ کی ہے۔عرب لیگ نے 11 مئی کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں اسرائیلی اقدامات کو ’’ غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا۔ مصر نے بھی مذمتی بیان جاری کیا۔اردن اور ترکی نے بھی اسرائیلی اقدامات کو ’’ زیادہ سخت‘‘ قرار دیا۔
ویسے تو اس تنازعے کی جڑیں 1799 میں ملتی ہیں جب نپولین نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کیلئے الگ وطن کا قیام ہونا چاہئیے۔ عملی طور پر فلسطین میں پہلی ’’ صیہونی آبادکاری‘‘1882 میں ہوئی، جس کے تین برس بعد باقاعدہ ’’ صیہونی تحریک ‘‘ کا آغاز ہوا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ 1896 سے 1948 کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صیہونی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا۔ نتیجے میںان نو آبادکار یہودیوں اور وہاں کے باسی مسلمانوں (فلسطینیوں) میں اختلافات اور لڑائی بڑھتی گئی۔ بالآخر اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا ’’امن منصوبہ‘‘ پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی ، اور کہا گیا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس رہے گا کیونکہ اس شہر کی اہمیت تینوں بڑے مذاہب ( اسلام، یہودیت اور عیسائی) کیلئے بہت زیادہ ہے۔ لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد صیہونی طاقتوں نے اس مقدس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا ۔ بعد ازاں 1967 میں اس شہرکے مشرقی حصے پر بھی( شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا۔
1980 میں اسرائیل میں ’’قانون یروشلم‘‘ پاس کیا گیا جس کیمطابق تمام یروشلم کو اسرائیل کی ملکیت اور دارلحکومت قرار دے دیا گیا۔ اسکے جواب میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے اسی برس اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا ( بذریعہ قرار داد نمبر 478)۔ مشرقی یروشلم میں تقریباََ چار لاکھ سے زیادہ فلسطینی مسلمان صدیوں سے بستے ہیں ۔ غاصبانہ قبضے کے بعد اسرائیل نے اس شہر کو اپنا حصہ تو قرار د ے دیا، لیکن کئی نسلوں سے آباد ان فلسطینیوں کو اسرائیل کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔یعنی عملی طور پر یہ مظلوم لوگ اس وقت کسی بھی ملک کے مکمل شہری نہیں ہیں۔ امریکہ میں 1995 میں ایک قانون " Jerusalem Embassy Act of 1995" پاس کیا گیا تھا جس میں امریکی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرے اور امریکی سفارتخانے کو یروشلم میں منتقل کرے۔ اس قانون میں امریکی صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ کیلئے اس منتقلی کو مؤخر کر سکتے ہے اور بعد میں آنے والے امریکی صدور ہر چھ ماہ بعد اس منتقلی کو مؤخر کرتے آئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں باقاعدہ اعلان کر دیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ تو جا چکے ہیں لیکن نئی امریکی حکومت بھی اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی لاتی نظر نہیں آتی۔
یہ تو تھی اس تنازعے کی حقیقت اور مختصر تاریخ ۔ عالمی طاقتوں اور میڈیا کے زیر اثر پاکستان میں بھی کچھ لبرل اور خود ساختہ دانشور آجکل یہ کہتے نظر آنے لگے ہیں کہ آج جب خود عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات درست کر رہے ہیں تو ہمیں عرب اسرائیل تنازعہ میں فریق بننے کی کیا ضرورت ہے؟ آج ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو یہ فلسطین کا کوئی ریاستی یا سیاسی مسئلہ ہے اور نہ ہی ’’ عرب اسرائیل‘‘ تنازعہ ہے بلکہ یہ دراصل دنیا پر غلبے کی تحریک ہے۔ یہودی اپنے سب سے بڑے دشمن، یعنی عیسائیوں کو قابو کر چکے ہیں اور اب انہیں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام اور دنیا پر حکمرانی کے خواب اور اسکی تعبیر کے درمیان واحد رکاوٹ صرف اسلام نظر آتی ہے ۔ عرب دنیا کہیں ذاتی مفادات کیلئے ، کہیں معاشی فوائد کیلئے اور کہیں کسی خوف کے زیر اثر اسرائیل کی جھولی میں جا چکی ہے۔ اب ہمیں اور ہمارے خطے کے دیگر اسلامی ممالک نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں ’’صیہونی غلبے‘‘ کی اس تحریک کے سامنے مزاحمت کرنی ہے یا گھٹنے ٹیک کر اس سیلاب میں بہہ جانا ہے۔ مسلمانوں اور پاکستان کیلئے ایک تلخ لیکن واضح حقیقت صرف اتنی ہے کہ دنیا کی اکثر مسلمان حکومتیں ذاتی مفادات کی بنا پر تقسیم ہو چکی ہیں اور ’’متحدہ مسلم امہ‘‘ نام کی کوئی چیز اب عملی طور پر وجود نہیں رکھتی۔ آج کی دنیا میں ’’ذاتی مفادات‘‘اور مشترکہ سیاسی و معاشی دشمنوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنائے جا رہے ہیں۔ باقی بچ جانیوالے مسلمان ممالک ( بشمول پاکستان ) کو بھی ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کر کے بیان بازی، ٹوئیٹر ، زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کر کے اپنے آپ کو معاشی اور فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ اپنا اور اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کا حق بزور طاقت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر اپنا حق چھوڑ کر چپ ہو کر ایک سائید پر بیٹھ جائیں۔ نہ تو تقریروں اور بیانات سے کچھ ملنا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی کسی قرار داد پر جمہوریت، سچائی اور حق کی بنیاد پر کوئی عمل ہونا ہے۔
٭…٭…٭