وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
تخت فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟
خودکشی شیوہ تمھارا، وہ غیور و خود دار
تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا ، بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے!
گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!
عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
نخل شمع استی و درشعلہ دود ریشہ تو
عاقبت سوز بود سایہ اندیشہ تو
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا!
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' دیکھے
مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
ماسوء اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
چودھری صاحب ہمیں مار کیوں نہ پڑے، ہم اسی قابل ہیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں وہ بیت المقدس میں کو مسلمانوں کے خون سے رنگیں کر رہے ہیں۔ کیا یہی ہماری قرآن سے محبت ہے۔ اب بھی صرف باتیں ہوں گی کیونکہ حضرت علامہ اقبال نے دہائیوں پہلے مسلم امہ بارے کہا تھا ہم آج بھی انہی حالات میں ہیں۔ چودھری صاحب جب دین سے محبت ہو گی، شب بیداری ہو گی، اللہ کو یاد کریں گے، عملی زندگی میں اتحاد و اتفاق ہو گا، جب مقصد اللہ کی رضا ہو گا، جب صرف ایک اللہ کے سامنے سر جھکائیں گے چیزیں ہمارے حق میں ہوتی چلی جائیں گی۔ یہ بنیاد ہے اس کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔
ولید اقبال کہنے لگے کہ بھارت سے ایٹمی مواد کا چوری ہونا، شدت پسند اور بنیاد پرستوں کے ہاتھوں ایٹمی مواد لگنے پرعالمی اداروں اور مغربی ممالک کی مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا معنی خیز ہے۔ بھارتی شدت پسند اور بنیاد پرست حکومت کی موجودگی میں دہشت گردوں کے پاس ایٹمی مواد کی موجودگی پر کسی بھی عالمی ادارے کا بھارت کے خلاف ایکشن نہ لینا انتہائی تشویشناک ہے۔ بھارت میں ایٹمی مواد کی چوری کے درجن سے زائد واقعات ہوئے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز واقعات پر بھی مغرب آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔ بھارت کا ایٹمی پروگرام اس قدر کمزور ہے کہ شدت پسند گروہ ایٹمی مواد چرا رہے ہیں۔ چودھری صاحب میرے والد صاحب کو حج بیت اللہ نصیب نہ ہوا مگر جذبہ عشق رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ساحل عرب کے نزد جہاز میں بیٹھے ہوئے ہی ذوق و شوق کی ایسی گداز کیفیت پیدا کر دی کہ مجھ جیسا عقل کا غلام بھی ایسا تصور نہیں کر سکتا کہاں اقبال اور کہاں امیر قوموں کے سہارے جینے والے مجھ جیسی بھکاری و محکوم مسلمانوں کی محکوم و مجبور نسل۔
ہائے چودھری صاحب کیا کہوں اللہ نہ کرے اس دکھ کے ساتھ ہی دنیا سے جانا ہو۔ حضرت علامہ اقبال اور ڈاکٹر جاوید اقبال مسلمانوں کی ایسی حالت کو دیکھتے ہوئے دنیا سے چلے گئے میں مسلم امہ کو ایسی حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ میں تاریخ کو بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں، میں قبلہ اوّل فلسطین اور دہائیوں سے آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کو ہندوؤں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں انہیں اس ظلم و ستم میں دنیا سے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ میں اس ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے نہ تو خاموش رہوں گا نہ چپ بیٹھا رہوں گا، میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ میرے نامہ اعمال کچھ اور نہیں تو قبلہ اوّل کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے قبضے میں کشمیریوں کی مدد ضرور لے کر جانا چاہتا ہوں۔
ولید اقبال بولتے رہے اور میں سنتا رہا۔ ان کے یہی خیالات متاثر کرتے ہیں۔ وہ انقلابی بھی ہیں حقیقت پسند بھی ہیں۔ انہیں اپنی بزرگوں کی امانت کو نئی نسل تک پہنچانا ہے۔ پھر ولید خاموش ہوئے اور کہنے لگے چودھری صاحب اجازت دیں لیکن وعدہ کریں کہ کشمیر اور قبلہ اول کے مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ میں انہیں باہر چھوڑنے آیا اور آج اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں میں نہ پہلے کشمیر و فلسطین کو بھولا تھا نہ آئندہ بھولوں گا بلکہ میں ہمیشہ کہتا ہوں یہ مذاہب کی جنگ ہے۔ مسلمان فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔
ختم شد
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024