عوام کے مسائل بڑھا کر اقتدار کے استحکام کی توقع رکھنا عبث ہے
آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد ڈالر کی شتربے مہار اڑان ‘ مہنگائی کے نئے طوفانوںکا اہتمام
حکومت نے مارکیٹ سے زائد ریٹ پر ڈالر فروخت کرنیوالی ایکسچینج کمپنیوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس سلسلہ میں گزشتہ روز ایمنسٹی کے تحت اثاثے ظاہر نہ کرنیوالوں کیخلاف مجوزہ کارروائی پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ڈالر کی مارکیٹ قیمت خرید 143 روپے 50 پیسے ہے جبکہ قیمت فروخت 144 روپے ہے۔ اسی طرح سعودی ریال کی قیمت خرید 38 روپے 20 پیسے اور قیمت فروخت 38 روپے 35 پیسے ہے۔ اجلاس میں جس میں چیئرمین ایف بی آر‘ گورنر سٹیٹ بنک‘ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے بھی شرکت کی‘ فیصلہ کیا گیا کہ طے شدہ کرنسی ریٹ سے انحراف کرنیوالی کمپنیوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی اور مارکیٹ سے زائد نرخ پر ڈالر فروخت کرنیوالی ایکسچینج کمپنیوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ دریں اثناء کرنسی مارکیٹ میں گزشتہ روز زبردست اتار چڑھائو دیکھا گیا۔ اوپن مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے دوران ڈالر سوا دو روپے تک مہنگا فروخت ہوا تاہم کلوزنگ پرانے ریٹ پر ہی ہوئی۔ روپے کی قدر مزید کم ہونے کے خدشات کے باعث ڈالر کی خریداری بڑھنے سے مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی کم ہوگئی جس کے باعث اوپن مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے دوران ڈالر سوا دو روپے کے اضافے سے 146 روپے 25 پیسے کا بھی فروخت ہوا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔ اسی طرح غیرملکی کرنسیوں میں برطانوی پونڈ اور یورو کو بھی اوپن مارکیٹ میں پَر لگے۔ برطانوی پونڈ 40 پیسے مہنگا ہو کر 187 روپے 40 پیسے میں فروخت ہوا جبکہ یورو ایک روپیہ دس پیسے مہنگا ہوکر 162 روپے 90 پیسے میں فروخت ہوا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مہنگا ڈالر فروخت کرنیوالی کمپنیوں کیخلاف کارروائی کے فیصلہ کے بعد تو اصولی طور پر روپے کو استحکام حاصل ہونا چاہیے تھا مگر جمعرات کے روز حیران کن طور پر پانچ روپے 61 پیسے کے اضافے سے ڈالر 147 روپے کا ہو گیا جبکہ کراچی سٹاک مارکیٹ میں گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 6 روپے 61 پیسے کے اضافے کے ساتھ 148 روپے ریکارڈ ہوئی جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ڈالر کا ریٹ بڑھانے میں جو عوامل اور محرکات اور کردار کارفرما ہیں‘ وہ کسی قانون اور کسی حکومتی سخت گیری کو خاطر میں نہیں لاتے اور حکومت کی کسی نہ کسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ڈالر کے جست بھرنے کا راستہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جبکہ ریٹ بڑھانے سے پہلے وہ سابقہ نرخوں پر دھڑادھڑ ڈالر خرید کر سٹاک کرلیتے ہیں‘ نتیجتاً ڈالر مہنگا ہونے کے ساتھ ہی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے جس سے سٹاک مارکیٹ سے وابستہ مافیاز مزید فائدہ اٹھا کر ڈالر کی اڑان مزید تیز کر دیتے ہیں۔ ڈالر کے نرخ بڑھنے کے ساتھ ہی ہم پر عذاب کی شکل میں بوجھ بنے غیرملکی قرضوں کا حجم بھی بغیر کوئی نیا قرضہ لئے اسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے اور درآمدی اشیاء بشمول پٹرول کے نرخ بھی بلند ہوجاتے ہیں جس کا اثر روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس طرح حکومتی اقدامات سے پیدا ہونیوالی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ڈالر کے نرخ بڑھنے سے بھی مجبور عوام مزید مہنگائی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جبکہ ڈالر مہنگا کرنیوالوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کا تصور اجاگر کرنیوالے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کے اقتدار میں ڈالر کو جستیں بھرنے کیلئے زیادہ سہولتیں حاصل ہوئیں چنانچہ انکے اقتدار کے ابتدائی دس ماہ کے دوران بتدریج اضافے کے ساتھ ڈالر 125 روپے سے بڑھتا بڑھتا گزشتہ روز 148 روپے تک جا پہنچا اور پھر اسی تناسب سے عوام کو مہنگائی کے عفریت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سابقہ دور حکومت میں ڈالر صرف ایک روز 112 روپے تک گیا تھا جس پر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سخت انضباطی اقدامات اٹھائے چنانچہ اگلے ہی روز ڈالر سو روپے پر واپس آگیا اور پھر سابقہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک روپے کو استحکام حاصل رہا جس کے بارے میں اپوزیشن بشمول پی ٹی آئی کی جانب سے پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کے نرخ بڑھنے سے روکے ہیں۔ یہ درحقیقت حکومت کی گورننس کا امتحان تھا جس میں بہرحال اسحاق ڈار سرخرو رہے۔ اگر اس کا آج کے حالات سے موازنہ کیا جائے تو وفاقی کابینہ کی جانب سے ڈالر کے نرخ بڑھانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کے فیصلے کے اگلے ہی روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا چھلانگ لگا کر 148 روپے تک پہنچ جانا حکومتی گورننس کے قطعی غیرمؤثر ہونے کی چغلی کھا رہا ہے اور بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ڈالر کو جستیں بھرنے کا موقع خود حکومتی ذمہ دار حلقوں کی جانب سے فراہم کیا جارہا ہے۔
اس وقت جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر قرض کے حصول کا باقاعدہ معاہدہ ہوچکا ہے جس کیلئے پاکستان کی جانب سے تسلیم کی گئی شرائط میں روپے کی قیمت کم کرنے کی شرط بھی شامل ہے تو معاہدے کے اگلے ہی روز ڈالر کا جستیں بھرنا بعیدازقیاس نہیں تھا چنانچہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ڈالر کے نرخ بڑھنے کا نوٹس لینا اور متعلقہ کمپنیوں کیخلاف سخت کارروائی کا اعلان کرنا محض لیپاپوتی اور مہنگائی کے مارے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے اور فی الحقیقت حکومتی پالیسی کے تحت ڈالر کے نرخ بڑھانے کا موقع دیا گیا ہے جس کے بارے میں کاروباری حلقوں میں پہلے ہی ڈالر کے نرخ 162 روپے تک لے جانے کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ گزشتہ روز اپوزیشن کی جانب سے اسی تناظر میں ڈالر کے نرخ بڑھنے کا نوٹس لیا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ حکومت نے ڈالر کے نرخ بڑھا کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں قبول کی گئی شرائط پر عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔ یہ صورتحال بلاشبہ عوام کو ہاتھ پائوں باندھ کر مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے چنانچہ ڈالر کے نرخ بڑھنے سے ہی نہیں‘ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کے مطابق وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں نئے ٹیکس لگانے‘ پہلے سے عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور اسی طرح پٹرولیم مصنوعات اور بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھانے سے بھی مہنگائی کا جن بے قابو ہو گا اور ملک کی اکثریتی آبادی غریب عوام پر ہی اسکی افتاد ٹوٹے گی جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبے پہلے ہی کراہ رہے ہیں۔ اب ان کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائیگا جبکہ انہوں نے عمران خان کے تبدیلی‘ نئے پاکستان اور ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست کے نعروں کی بنیاد پر انکے ساتھ اپنے اچھے مستقبل کی امیدیں وابستہ کرلی تھیں‘ اب انہیں اچھے مستقبل کے بجائے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے جس میں ان کیلئے اپنے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا‘ اپنی میڈیکل کی ضرورتیں پوری کرنا اور گھر کا کچن چلانا بھی مشکل ہورہا ہے تو عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ وابستہ کیا گیا رومانٹسزم بھی انہیں ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔
گزشتہ روز ڈالر نے جو حیران کن اڑان بھری وہ آئندہ بھی ڈالر کے نرخ بے قابو ہونے کی غمازی کررہا ہے۔ اگر ڈالر کے نرخ بڑھنے میں فی الواقع حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تو اپنی اتھارٹی تسلیم کرانے میں یہ حکومت کی بہت بڑی ناکامی سمجھی جائیگی۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کے جو طوفان اٹھ رہے ہیں‘ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کو عام آدمی کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے جنہیں منافع خور تاجر طبقات کی جانب سے کند چھری کے ساتھ ذبح کرنے کے پس پردہ بھی حکومتی ہاتھ ہی کارفرما نظر آتا ہے۔ اگر اس معاملہ میں پی ٹی آئی حکومت کی پہلے دس ماہ کی گورننس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں عوام کی درگت بنتی اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے وارے نیارے ہوتے نظر آتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ہمارے معاشرے میں "Haves" اور "Haves Not" کے مابین فرق اور فاصلہ اتنا بڑھ جائیگا کہ جس معاشرے کو وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم رکھتے ہیں‘ اس کا توازن برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائیگا۔ اگر تو کسی طے شدہ پالیسی کے تحت ملک میں غربت بڑھانے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تو ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھی جانی چاہیے کہ غریب طبقات اپنے مسائل سے عاجز آکر جب طوفان اٹھانے کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو اس طوفان میں سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں۔ حکومت کو بہرصورت ایسے طوفان کی نوبت لانے سے گریز کرنا چاہیے اور عوام کے دکھوں کے مداوا کا بھی سوچنا چاہیے۔