جمعۃ المبارک‘ 11 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 17؍مئی 2019ء
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کو ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ
یہ بات وہ ملک کہہ رہا ہے جو خود دہشت گردوں کا سب سے بڑا سرپرست ہے۔ بڑی کرپا ہو گی شری راجناتھ کی کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی مدد پاکستان میں اپنے پالتو دہشت گردبھیجنے کا سلسلہ بند کرلیں ورنہ ہم خود ان سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ بھارت کو بھی ہے اور اس کے پالتو دہشت گردوں کو بھی۔ بھارت خود اس زہریلے کانٹوں والے ببول کی آبیاری کرتا آ رہا ہے۔ صرف پاکستان ہی کیا سری لنکا، نیپال ، مالدیب جیسے ہمسایے بھی بھارت کی حرکتوں سے زچ ہوئے بیٹھے ہیں۔ سوائے پاکستان کے باقی سب کمزوراور چھوٹے ملک ہونے کی وجہ سے چپ رہتے ہیں۔ مگر پاکستان نے کانٹا چھوٹا بھی ہو چبھتا سخت ہے کے مصداق بھارتی دہشت گردی کے منصوبوں کو ہمیشہ ناکام بنا کر اس کے دل میں چھید کیا ہوا ہے۔ جس کی تکلیف سے اکثرو بیشتر بھارت کی چیخیں نکلتی رہتی ہیں۔ اب اگر بھارت کو ہم پر پیار آ ہی گیا ہے اور وہ ہماری کوئی مددکرنا چاہتا ہے تو پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی چھوڑ دے اور منافقت کی بجائے خلوص دل سے پاکستان کے قیام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ اچھے پڑوسی کی طرح رہے۔ یہ دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے بغل میںچھری منہ میں رام رام والی پالیسی ترک کر دے۔ یہ بیانات صرف دنیا کودکھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ پالیسی بیان وہی ’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والی بات ہے۔ پاکستان عطیۂ خداوندی عطیہ ہے اور وہ اپنے دشمنوں کو خدائی مدد سے نیست و نابود کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ بھارت کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے میں وزیر صحت کیخلاف ڈاکٹروں کا احتجاج اور ہڑتال
ہڑتال اور ڈاکٹروں میں کوئی انجانا رشتہ ضرور ہے کہ آئے روز ان کے درمیان کوئی نہ کوئی تعلق نکل آتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چل پڑتے ہیں۔ ان کے درمیان یہ ازلی رشتہ کسی نہ کسی انسانی کوتاہی کی وجہ سے ہی قائم ہوتا ہے۔ کبھی ڈاکٹروں کی غلطی ہوتی ہے کبھی مریضوں کی اور کبھی حکومت کی۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر حضرات ہڑتال کی انگلی تھامے بائیکاٹ بائیکاٹ کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ مریض اور ان کے لواحقین اس ساری صورتحال میں خوار ہوتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز پشاور میں جہاں پہلے ہی محکمہ صحت کی کارکردگی پر بے شمار سوالات اٹھتے ہیں ، اب کی بار وزیر صحت کی طرف سے طاقت کا جلوہ دکھایا گیا۔ انہوں نے اپنے سکیورٹی گارڈ کی مدد سے ایک سینئر ڈاکٹر کو فری سٹائل ریسلنگ کا نشانہ بنایا جسے اکثر لوگوں نے خاص طور پر ان ڈاکٹرز نے بھی دیکھا جو سرجیکل وارڈ میں موجود تھے۔ شاید سینئر ڈاکٹر بھول رہے تھے کہ وزیر سے الجھنے کا انجام کیا ہوتا ہے اور سکیورٹی گارڈز کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وزیر صحت کے ہاتھوں اس عزت افزائی پر اب ایک بار پھر ڈاکٹر حضرات نے صوبے میں کام نہ کرنے یعنی ہڑتال کی کال دی ہے ، کیونکہ پولیس میں وزیر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہمت نہیں ہے یا وہ طاقت نہیں رکھتی۔ ہمارے وزیر شذیر تو ویسے بھی کسی کو انسان نہیں سمجھتے۔ تحریک انصاف کی تربیت نے تو انہیں مزید جنگجو بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لیے اب دیکھئے وہ مزید کیا کرتے ہیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر موجود ہیں: حماد اظہر
ابھی تک تو پاکستانیوں کے کان یہ سن سن کر پک گئے تھے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ اب یہ یکدم 200 سے 11 ارب کیسے ہو گئے۔ باقی 189ارب ڈالر کیا بنکوں کے چوہے کتر کر کھا گئے۔ غیر ملکی بنک تو منافع بھی دل کھول کر دیتے ہیں۔ اب تو 11 ارب ہوں یا 200 ارب ان میں کتنا اضافہ ہو گیا ہو گا۔ وہ بنک ہمارے بنکوں کی طرح کنجوسی نہیں کرتے کہ منافع دیتے اگر 6 فیصد ہیں تو ڈبل وصول کرتے ہیں۔ اب ان حالات میں جب ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہماری معیشت مسائل کے گرداب میں پھنسی ہے۔ ہمیں ان ڈالروں کو ملک واپس لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یادش بخیر موجودہ حکومت تو برسراقتدار ہی اسی نعرے پر آئی ہے کہ ہم ملک لوٹنے والوں کے بیرون ملک جمع 200 ارب ڈالر واپس لائینگے۔ مگر کام اسکے برعکس ہے۔ آٹھ یا نو ماہ میں حکومت بیرون ملک چھپائی گئی رقم میں سے ایک یا دو فیصد بھی واپس نہ لا سکی۔ حکمران بیانات کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ شایداس لیے کہ بیرون ملک ڈالرزکے انبار جمع کرنیوالے سب اپوزیشن کے لوگ نہیں۔ ان میں حکومت کے اپنے بھی شامل ہیں۔ اسی لیے ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو‘‘ کے مصداق یہ جمع شدہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں حکومت کو رائی بھی پہاڑ لگ رہی ہے۔ عوام مسلسل بیرون ملک پڑے ان ڈالروں کے پہاڑ سر کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
بلوچستان عوامی شکایات کے ازالے میں سب سے پیچھے ہے: وزیر اعظم ہائوس
اس میں سارا قصور وہاں کے منتخب عوامی نمائندوں اور بیورو کریسی کا ہے جو وہاں عوام کی گردنوں پر مسلط ہیں۔ یہ خود عوام کی گردن دبا کر ان کی سانسیں بند کر رہے ہیں تو اس میں کسی دوسرے کو کیا دوش دینا۔ سرکاری افسران کی تو بات ہی نرالی ہے۔ انہیں یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے مستقل ملازم ہیں جبکہ عوامی نمائندے آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیسی پر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی اس گیم میں سارا نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ ان بے چاروں کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ اب وزیر اعظم کی طرف سے جو شہریوں کی شکایات سننے کے لیے پورٹل قائم کیا گیا تھا اس کے کئی مقامات پر اچھے نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ مگر بلوچستان میں وہی مرغے کی ایک ٹانگ والا معاملہ ہے۔ جہاں سرکاری محکموں کو 53 پورٹل اکائونٹس دئیے گئے تھے جن میں سے 41 کی کارکردگی صفر رہی۔ جس پر وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے بلوچستان کے چیف سیکرٹری کی کنڈی کھڑکائی گئی ہے۔ بھلا وہ کیا کہیں گے جنہیں سب اچھا کی رپورٹ ملتی ہو گی۔ حقیقت میں اس وقت سب سے زیادہ مسائل بلوچستان میں ہیں۔ غربت، جہالت، امراض ، بیورو کریسی اور عوامی نمائندوں کی لوٹ مار عروج پر ہے جس کی وجہ سے منفی جذباتیت جنم لیتی ہے اور وہاں کے نوجوان سارا الزام پنجاب پر لگا کر اپنا دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ اپنے نااہل کام چور انتظامی افسران ا ور ایم این ایز و ایم پی ایز کو کوئی پوچھنے کی ہمت ہی نہیں کرتا۔ تو یہ وہی ’’گرنا گدھے سے اور غصہ کمہار پر‘‘ نکالنے والی بات ہے۔ اب اس اعلیٰ کارکردگی پر دیکھتے ہیں یہ نوجوان کس طرح اپنے نمائندوں اور بیورو کریسی پر ہاتھ ڈالتے ہیں یا پہلے کی طرح پنجاب کو موردالزام ٹھہرا کے منفی سیاست کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭