آئی ایم ایف نے پاکستان کو توسیع فنڈ سہولت کے تحت 39 ماہ کے لیے 6 ارب ڈالرز کا بیل آئوٹ پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ ابھی سٹاف کی سطح پر ہوا ہے تاہم اس کی درست شرائط کی تفصیلات آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اعلامیے سے ہی معلوم ہونگی مگر اس میں خطرناک بات یہ بھی ہے کہ یہ معاہدہ بین الاقوامی فنانشل اداروں کی تصدیق سے مشروط ہے یعنی ہمیں ایف اے ٹی ایف میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف تسلی بخش اقدامات کرنا ہونگے۔ آئی ایم ایف کا ادارہ کسی بھی ملک کو براہ راست قرضے نہیں دیتا ۔ اسکے 183 ممبران ہیں جو اپنی بین الاقوامی تجارت کے حجم اور خام ملکی پیداوار کی بنیاد پر آئی ایم ایف کے فنڈ میں 75 فیصد ملکی کرنسی اور 25 فیصد گولڈ جمع کراتے ہیں جس پر انہیں فنڈ SDRs بھی قرضہ حاصل کرنے کے حقوق Special Drawing Rights مختص کرتا ہے۔ لہٰذا آئی ایم ایف اگر کسی ملک کو معاشی استحکام کی خاطر رقم دیتا ہے تو یہ اُس پر کوئی احسان نہیں کرتا کیونکہ یہ پاکستانی سمیت اس کے ممبرز ممالک کے رضاکارانہ فنڈز سے دی جاتی ہے۔ مگر چونکہ امریکہ اور یورپی ممالک کے اس فنڈز میں زیادہ شیئرز ہیں لہٰذا سیاسی طور پر ترقی پذیر ممالک کو امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کڑی شرائط کے تحت قرضہ جاری کیا جاتا ہے۔
پاکستان کو The extended Fund Facility کے تحت توازن ادائیگیوں کو بہتر بنانے کے لیے قرض دیا جا رہا ہے حالانکہ اگر آئی ایم ایف ہمارا خیرخواہ ہوتا تو ہمیں Supplementary Facility کے تحت بجائے 39 ماہ کے لمبے عرصے کے لیے 10 سے بارہ ارب ڈالرز کی امداد دیتا تو شاید ہم کچھ سنبھل جاتے مگر یہ امداد تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اور آج آئی ایم ایف امیر ممالک کا ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کرواتے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کیا ہیں۔ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی غرض نہیں وہ ہمیں مختلف اشیاء اور خدمات کی قیمتیں بڑھانے کی کڑی شرائط عائد کرتے ہیں اور ہمارے حکمران حکومتی اور ریاستی اداروں کے اخراجات کم کرنے کی بجائے بجلی، گیس ، پٹرول مہنگا کر کے عوام کی پیٹھ پر اُس اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کے بوجھ ڈالنے پر تیار کھڑے ہیں جو پہلے ہی ڈوب چکا ہے۔ اِس پروگرام کی سب سے کڑی شرط یہ ہے کہ پاکستان اپنے بنیادی خسارے میں جی ڈی پی کے لحاظ سے 1.06 فیصد کمی کرے اسکے لئے حکومت کو کم از کم 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑھیں گے اور تین سو ارب سے زائد سبٖڈیز کو ختم کرنا پڑے گا پرائمری خسارے میں حکومت کو اپنے مالیاتی خسارے میں سے گذشتہ مالی سال کے قرضوں کا سود منہا کرنا ہوتا ہے لہٰذا ہمارا پرائمری خسارہ حکومت کے اشیاء و خدمات پر اخراجات اور رواں مالی سال کے محاصل اور خالص ٹرانسفر ادائیگیوں کے فرق سے پتہ چلتا ہے تاہم ملک کا مجموعی مالیاتی حسارہ جو کہ اِس وقت 2800 ارب سے بڑھ چکا ہے اور ہماری آمدنی کا 7.3 فیصد کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اِسکی مساوات مندرجہ ذیل ہے
total deficit=r.Dt-1+Gt-Tt
(i) rشرح سو د (ii )Dtگزشتہ مالی سال کا قرض Gt حکومتی اخراجات اور Tt محصولات کو ظاہر کرتا ہے
لہٰذا کسی بھی ملک کا خسارہ گزشتہ سالوں کے قرضوں کی اقساط۔ اُن کی شرح سود اور رواں مالی سال کے اخراجات اور کل محصولات کے فرق سے معلوم ہوتا ہے۔ اِسی پر تحریک انصاف کے لوگ اِس مالی بحران کا ذمہ دار گزشتہ حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں مگر سابقہ حکمران کہتے ہیں کہ اُنہوں نے قرضے لیے مگر معاشی ترقی کی شرح نمو کو 5.8 فیصد تک پہنچایا۔ ڈالرز کا ریٹ 104 روپے تک محدود رکھا اور 10 ارب ڈالرز کے توانائی کے منصوبے لگائے اور زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالرز تک بڑھائے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق اگر کوئی ملک بین الاقوامی قرضوں کو حاصل کر کے شرح نمو بڑھا کر جی ڈی پی کا حجم بڑھا لیتا ہے اور وقت پر اِن قرضوں کو واپس کر دیتا ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ سابق حکمران سالانہ 2000 ارب روپے کے قرضے لے رہے تھے جسکی وجہ سے جب مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو ملکی قرضوں کا حجم 24000 ارب روپے تھا مگر موجودہ حکومت کے گزشتہ ایک سال میں اندرونی اور بیرونی قرضے 32000 ارب روپے کے ہیں۔ جسکی وجہ ہمارا ملکی قرض 30000 ہزار ارب سے بڑھ گیا ہے اور غیر ملکی قرضہ 104 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ فیصل واڈا کی پیشن گوئی کے مطابق پٹرول 200 روپے لٹر تک جا سکتا ہے۔ ڈالر مزید 30 فیصد گرے گا۔ بجلی، گیس کی قیمتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ عام آدمی اِن کے استعمال کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ جب ہمارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا۔ تو یہ اِس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے۔ جب کاروباری افراد کے بے بنیادی مراخل اور بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو وہ اپنے کاروباری مصارف بڑھنے پر ان کو بند کر دیتا ہے۔ بیروزگاری میں اضافے سے غریب آدمی بجلی گیس کے بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ آپ گزشتہ چارہ ماہ کے عام آدمیوں کے گیس کے بل دیکھ لیں اُنہیں بھی دس پندرہ ہزار ماہوار کے بل بھیجے گئے ہیں۔ جب متوسط طبقہ ان بلوں کو ادا نہیں کر سکتا ہے یا پٹرول مہنگا ہونے پر روزگار کے حصول کے لیے سفر نہیں کر سکتا ہے تو پھر یہ طبقہ بھی غربت کی لکیر کے نیچے چلا جاتا ہے۔ پھر ملک میں دہشت گردی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ نیشنل سکیورٹی کا بجٹ جتنا مرضی بڑھا لیں مگر جب غربت کا مارا ہوا بیروزگار نوجوان اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے جرائم اور دہشت گردی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُسکی زندگی مختصر ہے مگر وہ اپنے پیاروں کو سکھ دینے کیلئے غلط راہ پر چل نکلتا ہے لہٰذا اس پر روحانیت، نظریے پاکستان اور وطن سے محبت اور وفاداری کا سبق اثر نہیں کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38