ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہے، ہمیں مکمل شفافیت کی طرف جانا ہوگا: سپیکر قومی اسمبلی
اسلام آباد (اے پی پی) سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کو چلنے دینا چاہئے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے جماعتوں کے ساتھ وفادار نہیں تو ملک اور قوم کے وفادار کیسے رہیں گے‘ پارلیمنٹ میں اگر ہم کھینچا تانی کریں گے تو اس کے نتائج اچھے نہیں رہیں گے‘ دو تین شفاف الیکشن ہو گئے تو مزید بہتری آئے گی‘ پارٹیوں کے اندر جمہوری طرز فکر اسی وقت مضبوط ہوگا جب لوگ شخصیت کے بجائے منشور کو مدنظر رکھ کر پارٹیوں کو ووٹ دیں گے۔ بدھ کو پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر سردار ایاز صادق نے مزید کہا کہ 1977ء کے بعد موجودہ دور میں سب سے اہم قانون سازی ہوئی‘ 2013ء سے 2018ء تک ملک کی 14ویں قومی اسمبلی نے 136 بل منظور کئے اور 49 نئے قوانین بنائے گئے‘ ان میں سب سے اہم قانون سازی قرآن پاک کی لازمی تعلیم کا بل ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن ایکٹ ‘ اطلاعات تک رسائی سمیت دیگر اہم قانون سازی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ چار آئینی ترامیم منظور کی گئیں جن میں دو کا تعلق انسداد دہشت گردی اور دو کا تعلق انتخابی قوانین سے ہے۔ 16 پرائیویٹ ممبر بل منظور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے زمانے میں پی ٹی آئی کے استعفوں کے وقت انہوں نے آئین‘ قانون اور عدلیہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا ۔ 14ویں قومی اسمبلی کو چھ بجٹ منظور کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے پارلیمنٹری سٹڈیز کا کوئی تصور نہیں تھا ہم نے مختلف یونیورسٹیوں سے بات چیت کرکے 17 یونیورسٹیوں میں پارلیمنٹری سٹڈیز کا مضمون شامل کرایا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے اب تک 500 سے زائد بچے انٹرن شپ کرکے گئے ہیں۔ پپس کو ٹرانسفارم کرکے بہتر ادارہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی پر منتقلی کی وجہ سے پاکستانی پارلیمنٹ کو دنیا کی پہلی گرین پارلیمنٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ سات کروڑ سالانہ بجلی کا بل صفر پر آگیا اب ہمیں آئیسکو سے پیسے لینے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ اسمبلی سیکرٹریٹ کی ملازمتوں اور پروموشنز کو سو فیصد میرٹ پر کیا گیا۔ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ملازمین کو سول سروس کادرجہ دینے کا بل منظور کیا گیا ہے۔ روس‘ افغانستان‘ ترکی سمیت دنیا کے کئی دیگر ممالک کے سپیکرز نے کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ کرنے کے حوالے سے ہمارے موقف کو تسلیم کیا۔ او آئی سی سمیت دیگر فورمز پر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لئے تین قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کرائیں۔ کشمیر میں پیلٹ گنوں کے استعمال پر ہم نے دنیا کے 196 ممالک کے سپیکرز کو خطوط لکھے۔ سپیکر نے کہا کہ پارلیمانی نظام کی جڑیں جب تک مضبوط نہیں ہوں گی تب تک ہم اسے بہتر انداز میں نہیں چلا سکیں گے۔ قیام پاکستان سے اب تک جمہوریت کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے ایشوز کی بنیاد پر مخالفت کی جو ایک اچھا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پانی‘ تعلیم اور صحت کے ایشوز صوبوں کے پاس چلے گئے تاہم موجودہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے سب کو اکٹھے بٹھا کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ دور میں بڑے ایشوز پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مجھے رابطے کا کردار ادا کرنا پڑا۔ میری خواہش ہے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مستقبل میں بہتر روابط ہونے چاہئیں اور قومی ایشوز پر ہم سب کو یکساں طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایم این ایز پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی تو یہ صورتحال جمہوریت کے لئے بہتر نہیں ہوگی۔ ہمیں مکمل شفافیت کی طرف جانا ہوگا۔