جمعرات ‘ 1439 ھ ‘ 17؍ مئی 2018ء
نقیب اللہ کیس کا اہم گواہ منحرف ہوگیا‘ پولیس کے تشدد پر بیان دیا تھا
اب یہ منحرف گواہ کہہ رہا ہے کہ اس پر تشدد کرکے پولیس نے رائو انوار کیخلاف بیان دلوایا۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس وقت جب رائو انوار مفرو ر تھا تو پولیس نے گواہ کو ڈنڈا ڈولی کرکے سابق ایس پی ملیر کیخلاف بیان دلوایا تو اب کیا پولیس کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر وہ عدالت میں بیان بدل رہا ہے۔یا اب حقیقت میں اس کی اصل خاطر تواضح کرکے پولیس نے اسے اپنے بیان سے منحرف ہونے کی راہ دکھائی ہے۔ یہ کمال کی بات ہے اور ایسا کمال ہماری باکمال پولیس کے سوا کوئی کر ہی نہیں سکتا ۔ ؎
کون مغلوب ہوا کس پہ لگا ہے الزام
کشمکش ایسی ہے انصاف عدالت مانگے
نقیب اللہ کا قتل صرف پولیس کو ہی نہیں پاکستانی عوام کو بھی مہنگا پڑ رہا ہے۔ اس کی آڑ لے کر قومیت کی آگ بھڑکانے والے مطلب پرست جو کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے تھے ایک بار پھر ملک دشمن عناصر کی شہ پر سڑکوں پر نکل کر پاک افغان سرحدوں کو ختم کرنے اور عسکری سلامتی کے اداروں کیخلاف سانپ جیسی زبانیں نکالے پھنکار رہے ہیں۔ ان زہریلے کیڑے مکوڑوں کے بلوں پر اگر ابھی سے کرم کش سپرے نہ کیا گیا تو ان کے ہاتھوں وزیرستان سے لے کر سوات تک امن کی ہری بھری فصل خراب ہو سکتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ نقیب اللہ قتل کا ایمانداری سے ٹرائل کیا جائے اور جو بھی مجرم ہو اسے کڑی سزا دی جائے اور کیس کا سارا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھول کر رکھا جائے۔
٭…٭…٭…٭
روس میں اپوزیشن لیڈر کو احتجاج پر 30 روز قید کی سزا
بڑی عجیب بات ہے خبر پڑھنے کے باوجود اس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا، اپوزیشن کا کام ہی احتجاج کرنا ہوتا ہے۔ اپوزیشن احتجاج نہیں کریگی تو کیا واہ واہ کے ڈونگرے برسائے گی حکمرانوں کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کا ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالنا موقع بے موقعہ احتجاج کرنا راستے بلاک کرنا، توڑ پھوڑ کرنا یہ تو اپوزیشن والے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کو بھلا اس کام پر کیسے سزا دی جا سکتی ہے وہ بھی اپوزیشن رہنما کو۔ عوام کی بات چھوڑیں وہ بے چارے تو پیدا ہی لاٹھیاں کھانے، کوڑے کھانے، جیل جانے، قید کاٹنے کیلئے ہوتے ہیں مگر آج تک کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا نہ ہی حکمرانوں نے یہ ہمت کی ہے کہ کسی مخالف سیاسی رہنما کو گرفتار کرکے احتجاج کرنے کے جرم پہ سزا دی جائے۔ اب یہ روس والے کس سیاسی بدعت کو رواج دے رہے ہیں۔
حکومتیں اپوزیشن رہنمائوں کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیتی ہیں یا گھروں اور ریسٹ ہائوسز میں نظر بند کر دیتی ہیں مگر سزا دے کر قید نہیں کیا جاتا۔ یہ تو ملزم کو مجرم بنا دینے والا عمل ہے۔ اب پتا نہیں روس میں اپوزیشن والے اس سزا کے خلاف بھڑکتے ہیں یا مٹی پائو والے فلسفے کے تحت خاموشی سے: ؎
جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
کے مصداق چپ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان حالات میں سب اپنی اپنی دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کا پاکستانیوں کو بھی تجربہ ہے۔
پاکستان نے تاریخی ٹیسٹ میچ میں آئرلینڈ کو شکست دیدی
کھیل کے میدانوں سے جس تواتر کے ساتھ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آ رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ برے دن آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔ فتح کے شادیانے بالآخر غم کی شہنائیوں پر غالب آنے لگے ہیں دیر سے سہی کھیلوں کے میدان دوبارہ آباد ہونے سے کھیل اور کھلاڑیوں کا رشتہ مضبوط ہوا ہے ان کی فتوحات کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے۔ ائرلینڈ کو پاکستانی ٹیم نے اپنے دورے کے اکلوتے ٹیسٹ میچ میں 5وکٹوں سے شکست دے کر کٹ شائقین کے ہی نہیں حکومت کے بھی دل موہ لئے ہیں جبھی تو لوگوں کے ساتھ ساتھ حکمران بھی ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ آئرلینڈ کے بعد اب قومی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کیخلاف صف آرا ہو گی۔ گوروں کے دیس میں ان کے گھر میں ان کے میدانوں میں انہیں ہرانے کا نشہ اور مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ہمارے کھلاڑی حوصلے بلند رکھیں۔ یہاں بھی کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ یہ نہ ہو کہ گوروں سے مرغوب ہو کر یا چٹی چمڑی دیکھ کر دل کے ساتھ ساتھ حوصلے بھی ہار بیٹھیں۔ یہ میخانے یورپ کا پرانا انداز ہے بقول اقبال: … ع
’’لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر‘‘
وہاں جا کر ان کو دیکھ کر ایشیائی لوگوں کا تو پہلے ہی حوصلہ انکے دل کی طرح ہار جاتا ہے ہوش کو بحال ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ سو ہمارے اکثر کھلاڑی تو پہلے بھی کئی بار یورپ کے نظارے کر چکے ، دورے کر چکے وہ نئے کھلاڑیوں کا مورال بلند رکھنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
انتخابی ٹکٹوں کیلئے درخواستوں کی وصولی پی ٹی آئی نے مکمل کر لی، مسلم لیگ نے 25 مئی کی تاریخ دیدی
کہنے کو تو سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اپنے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرتی ہیں جس کی واجبی سی قیمت یا فیس ہوتی ہے اس بار پی ٹی آئی نے اپنی فیس ایک لاکھ رکھی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے اس کا ریٹ مستحکم ہے اور تحریک والے الیکشن میں کامیابی کے حوالے سے کافی پھر امید ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے 50ہزار روپے فیس رکھی ہے باقی جماعتوں کا علم نہیں۔ یہ تو صرف الیکشن کمشن اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہے ورنہ گزشتہ الیکشن میں بھی دنیا جانتی ہے کہ تحریک انصاف کی گڈی چڑھی ہوئی تھی اور اس کے ٹکٹ کے حصول کیلئے امیدوار بذات خود نوٹوں کے بیگ بھر بھر کے اسلام آباد کے چکر پر چکر لگاتے رہے۔جس کی بولی سب سے زیادہ تھی۔ اسے ہی ٹکٹ نصیب ہوا باقی پرانے ہوں یا نئے پرجوش لیڈر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کئی کو تو دی دیا گیا ٹکٹ واپس لے کر بھرے بیگوں والوں کو دے دیا گیا۔ یوں بولی کروڑوں روپے تک جا پہنچی۔ یہی حال مسلم لیگ کا بھی تھا مگر وہاں اتنا گرم بازار نہیں تھا البتہ قیمت کا فرق صرف انیس بیس کا ہوگا ۔اب ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کی کمائی کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ ایک لاکھ اور 50ہزار والے ٹکٹ اندرون خانہ کروڑوں کی حد کو چھو لیں گے جو یہ نذرانہ ادا کریں گے انہیں ٹکٹ یافتہ قرار دیا جائے گا۔ یوں ایک بار پھر ہماری سیاسی اشرافیہ ہی اسمبلیوں کی رونق بنے گی۔