الحمداللہ! پاکستان زندہ ہے

Mar 17, 2025

نازیہ مصطفےٰ

بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر چھائی گھمبیر خاموشی کو چیرتی ہوئی جعفر ایکسپریس کی سیٹی نے جب اپنا راستہ تبدیل کیا، تو یہ محض ایک ریل گاڑی کا سفر نہیں تھا جو منزل سے بھٹک گیا۔ یہ تو اْس قوم کی داستانِ غم تھی جس کے وجود کو کھوکھلا کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں نے اندرونی غداروں کے ہاتھوں میں بم اور بندوق تھمادی تھی۔ 26 مسافروں کی لاشوں نے جب خاکِ بلوچستان کو سرخ کیا، تو یہ صرف خون کا دریا نہیں بہہ رہا تھا۔ یہ تو اْس "عالمی جنگ" کا ایک اور باب تھا جس میں پاکستان کا کردار صرف ایک میدانِ جنگ نہیں، بلکہ ایک قلعہ ہے جو عالمی دہشت گردی کی یلغار کو روکے ہوئے ہے۔ جب تک پاکستان کے جوان سرحدوں پر کھڑے ہیں، نیویارک، لندن، اور پیرس کی عمارتیں محفوظ ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی قلعہ اپنے اندر گھسے ہوئے کیڑوں سے خود محفوظ رہ پائے گا؟
جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا واقعہ کوئی اچانک نہیں ہوا۔ یہ اْس سلسلے کی کڑی ہے جو 2001 کے بعد سے جاری ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی، تو پاکستان کو ایک "غیرمحفوظ سرحد" کا تحفہ ملا۔ آج جب امریکہ شکست کھا کر بھاگ چکا ہے، تو یہی سرحد پاکستان کے لیے زہر بن گئی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے سائے میں پلنے والے دہشت گرد گروہوں نے بلوچستان کو اپنا نیا اڈہ بنا لیا ہے۔ مگر یہ کھیل صرف افغانستان تک محدود نہیں۔ کشمیر سے لے کر خیبر تک، پاکستان کے ہر حصے میں یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے والوں نے خواتین اور بچوں کو ڈھال بنایا؟ یہ تو وہی تکنیک ہے جسے غزہ میں اسرائیل استعمال کرتا ہے۔ کیا یہ دہشت گردی کا نیا "گلوبل ماڈل" ہے جہاں مظلوموں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے؟
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں سول و عسکری قیادت کا یک زبان ہونا اطمینان کا باعث ہے، مگر یہ سوال ابھی زندہ ہے کہ کیا ہماری حکمت عملی محض ردعمل تک محدود رہے گی؟ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہر دہشت گرد حملے کے بعد ہم "سخت کارروائی" کا اعلان کرتے ہیں، مگر دہشتگردوں کی جڑوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کے بعد ہم نے سمجھا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا، مگر یہ عفریت ایک نئی شکل میں واپس آگیا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں؟ کون انہیں فنڈنگ دیتا ہے؟ کون انہیں جدید اسلحہ فراہم کرتا ہے؟ جب تک ہم ان سوالوں کے جواب نہیں ڈھونڈیں گے، تب تک ہر کارروائی محافظوں کی ایک اور قربانی ہوگی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان نے جہاں عوام کو تسلی دی، وہیں ایک تلخ حقیقت بھی عیاں کی۔ افغان عبوری حکومت کو دیا گیا مشورہ دراصل ایک چیلنج ہے۔ کیا کابل میں بیٹھے طالبان اس جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں؟ یا پھر وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنانے پر تْلے ہوئے ہیں؟ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں کے حکمران کبھی کسی کے اتحادی نہیں رہے۔ اْن کا مفاد صرف اپنی بقا ہے۔ کیا پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے افغان سرحد پر ایک نئی "دیوار" تعمیر کرنی ہوگی؟ یا پھر عالمی برادری کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے، مگر یہی عالمی برادری ہمیں تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ چین، امریکہ، روس ، سب کے مفادات پاکستان سے جڑے ہیں، مگر کیا یہ ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے کو تیار ہیں؟ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان محض الفاظ کا پلندہ ہے۔ کیا انہوں نے کبھی اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کی ہے؟ کیا انہوں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانیت کے خلاف مظالم کو روکا ہے؟ عالمی برادری کا یہ دوہرا معیار پاکستان کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے۔
اس جنگ کا ایک اور محاذ سوشل میڈیا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے واقعے کے فوراً بعد بھارتی اکاؤنٹس سے جعلی ویڈیوز اور پراپیگنڈے کا ایک طوفان اْٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کوئی نیا ہتھیار نہیں۔ 2019 کے "ڈرامے" کے دوران بھی بھارت نے اسی طرح کی مہم چلائی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے اندر بیٹھے کچھ "دانشور" اِس پراپیگنڈے کو ہوا دینے میں مصروف ہیں؟ کیا ہماری اپنی صفوں میں وہ لوگ موجود ہیں جو قوم کو تقسیم کرنے کے لیے بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟ یہ المیہ صرف پاکستان کا نہیں۔ ہر قوم کے اندر غدار ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ کچھ قومیں اِن غداروں کو بے نقاب کر دیتی ہیں، اور کچھ اْنہیں "آزادیِ رائے" کا نام دے کر پالنے لگتی ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی اس کے خاتمے کی سازشیں بنتی رہی ہیں۔ 1971 میں ہم نے مشرقی پاکستان کھویا، مگر آج کا پاکستان اْس سے کہیں مضبوط ہے۔ ہماری فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ مگر یہ جنگ صرف فوج کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ہے۔ جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار، اور انصاف فراہم نہیں کریں گے، تب تک دہشت گردوں کے لیے بھرتی کے دروازے کھلے رہیں گے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں بیٹھے نوجوان کیوں دہشت گرد گروہوں میں شامل ہوتے ہیں؟ کیا یہ محض بیرونی سازش ہے؟ یا پھر ہماری اپنی ناانصافیوں نے اْنہیں مجبور کیا ہے؟اس جنگ کا حل صرف بندوق کی نوک پر نہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمارے مدارس اور یونیورسٹیاں ایسے شہری پیدا کررہے ہیں جو یا تو فرقہ واریت کا شکار ہیں یا پھر مایوسی کے اندھیروں میں گم ہیں۔ ہمیں اپنی معیشت کو استحکام دینا ہوگا۔ جب تک نوجوان کو روزگار نہیں ملے گا، تب تک وہ کلاشنکوف اْٹھانے کی جانب مائل ہوتا رہے گا اور دہشت گردوں کا آلہ کار بنتا رہے گا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ کیا ہم امریکہ اور چین کے درمیان توازن قائم کرسکتے ہیں؟ کیا ہم روس اور ایران کے ساتھ تعلقات کو استحکام دے سکتے ہیں؟
جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوجی کارروائی سے نہیں ہوگا۔ یہ ایک جامع حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے جس میں تعلیم، معیشت، اور انصاف سب شامل ہوں۔ ہمیں اپنے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، نہ صرف وہ جو سرحدوں کے پار بیٹھے ہیں، بلکہ وہ جو ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کی کاوشیں تب ہی کامیاب ہوں گی جب وہ دہشت گردی کی جڑوں تک پہنچیں گی۔ ورنہ یہ محض ایک ڈراما رہے گا جس کا اختتام خاکم بدہن ایک اور جعفر ایکسپریس کے سانحے پر ہوسکتا ہے۔
پاکستان کا عزم ہمیشہ کی طرح غیرمتزلزل ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دشمنوں کو شکست دی ہے، اور آئندہ بھی دیں گے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کو پہچانیں۔ ہماری طاقت صرف ہتھیاروں میں نہیں، بلکہ اتحاد، ایمان، اور عوام کی محبت میں ہے۔ جب تک یہ رشتے قائم ہیں، پاکستان زندہ ہے۔ اور جب تک پاکستان زندہ ہے، دہشت گردی کی مکروہ قوتیں خاک میں ملتی رہیں گی۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں