بلوچستان،محرومیاں ،دہشت گردی اور جدید ٹیکنالوجی

Mar 17, 2025

عتیق انور راجا

 دشت گردی سے نبٹنا ہے تو سب سے پہلے محرومیاں ختم کرنا ہوں گی۔بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔بلوچ عوام کی محرومیوں کی بنیادی وجوہات میں مقامی سیاست دانوں کی بے حسی، سرداری نظام اور وسائل کا غلط استعمال شامل ہیں۔مقامی سیاست دان عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں،فنڈز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اور ترقیاتی منصوبے اکثر ادھورے رہ جاتے ہیں۔ سرداری نظام عوام کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ کچھ سردار اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم اور ترقی کے مواقع محدود رکھتے ہیں۔ اگر مقامی سیاست دان ایمانداری سے کام کریں، سرداری نظام میں اصلاحات لائی جائیں، اور عوام کو ان کے حقوق دیے جائیں، تو بلوچستان کی محرومیاں ختم ہو سکتی ہیں۔اس کے بعد بلوچستان میں دشت گردی کے خلاف روایتی طریقوں کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ سے کرنا ہوگا ۔دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک کو اس چیلنج کا سامنا ہے، جہاں دہشت گرد گروہ جدید ہتھیاروں، سوشل میڈیا، اور خفیہ نیٹ ورکس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے روایتی طریقے کافی نہیں رہے، بلکہ اب اس فتنے کے مقابلے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال اور مقامی لوگوں کی شمولیت ناگزیر ہو چکی ہے۔
دنیا میں اس وقت مصنوعی ذہانت AI اور ڈیٹا اینالیٹکس  کے ذریعے دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور مشکوک سرگرمیوں کا قبل از وقت پتہ لگانا معمول بن رہاہے۔ضروری ہے کہ بلوچستان میںAI کے ذریعے ہی دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کا پتہ چلا جائے۔سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔زمینی فوج کے جانی نقصان میں کمی کے پیش نظر، بارڈر سیکیورٹی کو مؤثر بنانے ،دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے، ان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرنے اور حتیٰ کہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے میں ڈرونزکا استعمال کیا جائے۔بائیومیٹرک شناخت اور چہرہ شناسی جیسی ٹیکنالوجی کو دہشت گردوں کی نشاندہی اور ان کے سلیپر سیلز کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیاجائے ۔ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، اور سرحدی علاقوں پر بائیومیٹرک سسٹم نصب کیے جائیں ۔شناختی کارڈ، پاسپورٹ، اور دیگر دستاویزات میں بائیومیٹرک ڈیٹا کو شامل کر کے سیکیورٹی کو بڑھایا جا رہا ہے۔ملک بھر بغیر شناختی کارڈ سفر،روزگار اور تعلیم کا سلسلہ بند کیا جائے۔دہشت گردی اب سائبر اسپیس میں بھی منتقل ہو چکی ہے، جہاں دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا، انکرپٹڈ چیٹس، اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنے پروپیگنڈے اور بھرتی کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔وہیں حکومتیں اور انٹیلیجنس ادارے ڈیجیٹل نگرانی کے ذریعے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کو قبل از وقت بے نقاب کر سکتے ہیں۔سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور جی پی ایس ٹریکنگ کی مدد سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور خفیہ ٹھکانوں کا سراغ لگایا جائے۔حساس علاقوں میں ڈرونز کے زریعے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کا نظام بنایا جائے تا کہ آپریشنل فورسز بہتر پلاننگ کے ساتھ بروقت ایکشن لیتے ہوئے دشت گردوں کے جہنم واصل کر سکیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقامی لوگوں کو ساتھ ملانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ وہ اپنے علاقوں کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہیں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتے ہیں۔جرگوں اور عوامی رابطہ مہم کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔مقامی افراد کو دہشت گردوں کی نشاندہی اور اطلاعات فراہم کرنے کے لیے متحرک کیا جائے۔نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔اس لیے کہ دہشت گرد تنظیمیں اکثر بے روزگار اور ناخواندہ نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہیں، لہٰذا انہیں تعلیم اور روزگار کی سہولتیں دی جائیں۔ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز، اسکالرشپ پروگرامز، اور کاروباری منصوبوں میں تعاون فراہم کیا جائے۔دشت گردی کے خاتمے میں مذہبی رہنماؤں اور اساتذہ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔منصوبہ بنا کے،مساجد اور مدارس کے علماء کو دہشت گردی کے خلاف بیانیہ مضبوط کرنے کے لیے متحرک کیا جائے۔اسکولوں اور جامعات میں امن اور رواداری کے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ بلوچ نوجوانوں کے لیے کرکٹ ،ہاکی  اور دوسرے قومی کھیلوں میں کوٹہ مخصوص کیا جائے۔عوام کے لیے ایک ایسا محفوظ نظام قائم کیا جائے جہاں وہ دہشت گردوں کی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دے سکیں۔دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی سہولیات، جیسے پانی، بجلی، اسپتال، اور اسکول قائم کیے جائیں۔اعلانات کے ساتھ عملی طور پرترقیاتی منصوبے اس طرح شروع کیے جائیں کہ عوام کو ان منصوبوں سے فائدہ ملے اور وہ  دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ایک طرف بلوچستان، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے کم گنجان آباد علاقہ ہے۔بلوچستان، پاکستان کے کل رقبے کا 44% حصہ ہے، مگر ملک کی مجموعی آبادی کا صرف 6% یہاں بستا ہے۔ صوبے میں سب سے بڑی قوم بلوچ ہے، جو مشرقی، جنوبی اور مغربی اضلاع میں آباد ہے۔ شمالی اور شمال مشرقی بلوچستان میں پشتون اکثریت میں ہیں۔ہزارہ برادری بنیادی طور پر کوئٹہ میں آباد ہے، جو زیادہ تر ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد میں رہتی ہے۔ گوادر، حب اور دیگر صنعتی علاقوں میں سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔کئی علاقے ویران اور غیر آباد محسوس ہوتے ہیں۔علاقے کی ترقی کے لیے ایک فیصلہ بلوچستان کو انتظامیہ بنیاد چار  صوبوں میں تقسیم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔پھر صنعتی زون بنا کے دوسرے صوبوں سے سرمایہ داروں کووہاں، فیکٹریاں ،کارخانے اور شاپنگ مالز بنائے جائیں جس سے مقامی لوگوں کے لیے بہتر روز گار کا انتظام ہو ۔یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے تقسیم سے لے کے اب تک صرف وہ صوبے چھوٹے کیے ہیں جہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔مختصر تفصیل پیش ہے۔ بمبئی سے مہاراشٹر اور گجرات، پنجاب سے ہریانہ،آسام سے میگھالیہ، منی پور، تریپورہ ،بہار سے جھارکھنڈ ،مدھیہ پردیش سے چھتیس گڑھ،اتر پردیش سے اتراکھنڈ ،مدراس سے آندھرا پردیش اور پھرآندھرا پردیش سے تلنگانہ صوبے بنائے گئے۔ تو کیا وجہ ہے بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لیے نئے صوبے نہیں بنائے جارہے۔

مزیدخبریں