وزیر اطلاعات کے سنگین الزامات اور وزیراعظم کا مل بیٹھنے پر زور
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا ہے کہ گلگت بلتستان اورپنجاب پولیس کو آپس میں لڑوا کر خانہ جنگی کی سازش کی جارہی ہے۔ حکومت کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جتھے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہیں‘ سیاسی جماعت کا لیڈر خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا کر چھپتا نہیں بلکہ سینہ تان کر گرفتاری دیتا ہے۔ انکے بقول پاکستان کے عوام گزشتہ چند ماہ سے ایک تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ایک بزدل‘ فارن ایجنٹ‘ توشہ خانہ چور‘ کھڑی چور اور توہین عدالت کا مجرم پولیس سے بھاگ رہا ہے۔ وہ تحریک کیلئے تیار اور عدالت جانے کیلئے بیمار ہے۔ یہ پاکستان میں خانہ جنگی اور افراتفری چاہتا ہے اور تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ حکومت اسے گرفتار کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت گرفتار کرنا چاہتی تو ریاستی طاقت بھی موجود تھی اور اختیار بھی موجود تھا جو عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈال کر استعمال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کے حملوں سے 65 پولیس افسران زخمی ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کی فورس کو استعمال کرکے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے سر پھاڑے جا رہے ہیں جبکہ پولیس کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے۔
بے شک آئین و قانون کی عملداری اور عدالتی فیصلوں کی تعمیل تمام ریاستی اور انتظامی اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے اور قانون کا اطلاق بلاامتیاز ریاست کے ہر شہری پر ہوتا ہے۔ عمران خان کی جانب سے مختلف زیرسماعت مقدمات میں متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے سے گریز پر انکے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے۔ اول تو عمران خان کو قانون اور عدالتی احکام کا احترام کرتے ہوئے خود ہی عدالتوں میں پیش ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ قانون سے راہ فرار اختیار کرنا اپنا کیس خراب کرنے کے ہی مترادف ہوتا ہے۔ سابق وزرائے اعظم تو اپنے منصب پر فائز رہ کر بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں مگر عمران خان نے عوام میں اپنی مقبولیت کے زعم میں نہ صرف ریاستی اداروں اور انکے سربراہوں کی تضحیک کا راستہ اختیار کیا بلکہ عدالتوں میں پیش نہ ہونا بھی اپنا حق گردان لیا اور حکمران قیادت کیخلاف بلیم گیم انتہاءکو پہنچا دی۔ وہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی اپنے پارٹی کارکنوں کا جم غفیر لے کر پیش ہوئے جس کے دوران عدلیہ کا احترام بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔ اس تناظر میں انکے مخالف سیاسی حلقوں کا یہ کہنا بادی النظر میں درست نظر آتا ہے کہ عمران خان کی انتشار اور افراتفری کی سیاست اور انکی جانب سے ریاستی اداروں کو رگیدنے سے سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر وہ عدلیہ اور قانون کا احترام ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے تو عام آدمی سے اسکی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ جب عدالت کی جانب سے انکے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے جس کا مقصد کسی ملزم کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانا ہوتا ہے تو عمران خان کو خود ہی عدالت میں پیش ہونے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا مگر انکی طرف سے مسلسل گریز سامنے آیا تو ڈی آئی جی اپریشنز اسلام آباد کی قیادت میں اسلام آباد پولیس عمران خان سے عدالتی احکام کی تعمیل کرانے انکی رہائش گاہ زمان پارک لاہور آئی جہاں ڈنڈوں‘ پتھروں‘ غلیلوں سے مسلح ہو کر بیٹھے پی ٹی آئی ورکرز نے ان پر دھاوا بول دیا۔
اس حوالے سے زمان پارک دو روز تک عملاً میدان جنگ بنا رہا جس کے دوران ڈی آئی جی سمیت پولیس افسران و اہلکار بھی زخمی ہوئے اور پولیس کی شیلنگ سے پی ٹی آئی کارکن بھی زخمی ہوئے۔ اگر پی ٹی آئی کارکن پولیس پر حملہ آور نہ ہوتے تو ان پر واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کی نوبت ہی نہ آتی۔ مگر عمران خان کی کال پر ملک بھر سے آنیوالے کارکنوں کا بادی النظر میں ایجنڈا ہی افراتفری اور خانہ جنگی کی فضا پیدا کرنے کا تھا جس کا عندیہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق وفاقی وزیر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی لیک ہونیوالی آڈیو کال سے بھی ملتا ہے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے صدر مملکت عارف علوی سے مبینہ طور پر ہونیوالی ٹیلی فونک گفتگو میں پولیس پر پٹرول بم پھینکنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے ہاتھوں بہت بڑے فساد کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
یقیناً اسی پس منظر میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ الزام سامنے آیا ہے کہ زمان پارک میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کیخلاف گلگت بلتستان کی فورس استعمال ہوئی ہے اور ریاستی اداروں پر مسلح جتھے حملہ آور ہوئے ہیں۔ چونکہ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس لئے عمران خان کے کہنے پر اس حکومت کی جانب سے اپنی فورس زمان پارک لاہور بھجوانے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس پر حملوں کے دوران زمان پارک سے گرفتار ہونیوالے بیشتر افراد افغانستان کے شہری ہیں۔ اگر فی والواقع ایسا ہوا ہے تو یہ صورتحال دو حکومتوں کی فورسز میں تصادم کراکے ملک میں عملاً خانہ جنگی کی نوبت لانے کے مترادف ہے۔ عمران خان یہ اقدام 2014ءمیں اپنی دھرنا تحریک کے دوران بھی اٹھا چکے ہیں جب انکے کہنے پر خیبر پی کے کی پی ٹی آئی حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ تصادم کیلئے اپنی فورس کے مسلح دستے اسلام آباد روانہ کر دیئے تھے۔ اسے تعمیری سیاست کے زمرے میں ہرگز شمار نہیں کیا جا سکتا جبکہ ایسی سیاست کو پروان چڑھنے دیا گیا تو ریاست و حکومت کی رٹ عملاً ختم ہو کر رہ جائیگی اور خانہ جنگی کے ماحول میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے یقیناً حکومتی ایجنسیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہی گلگت بلتستان فورس زمان پارک لاہور میں بھجوائے جانے کا الزام عائد کیا ہوگا اس لئے اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لینے اور فوری سدباب کی ضرورت ہے ورنہ فساد کے راستے کھولنے والی اس سیاست میں سسٹم کی دھجیاں تو اڑیں گی ہی‘ ملک کی سلامتی کو بھی سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ملک کی خاطر تمام قومی سیاسی قیادتوں کے مل بیٹھنے پر زور دیا ہے تاہم اگر کوئی اس راہ پر نہیں آتا تو سٹیٹ اتھارٹی اور قانون کی عملداری تسلیم کرانا سٹیٹ مشنری کی ہی ذمہ داری ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کی نوبت لانے کی بہرحال کسی کو بھی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے۔