جمعة المبارک، 24 شعبان المعظم، 1444ھ، 17 مارچ 2023ئ

زلمے خلیل کا بیان مسترد۔ پاکستان کو کسی کے لیکچر کی ضرورت نہیں۔ دفتر خارجہ
ہماری باہمی چپقلش اور اختلافات کا شاخسانہ ہے کہ اب زلمے خلیل زاد کو بھی زبان لگ گئی ہے۔ ورنہ ”چہ پدی چہ پدی کا شوربہ“ جس شخص کا اپنا گھر جل رہا ہو، اسے دوسروں کو آگ سے بچاﺅ کا لیکچر دینے سے قبل اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ ابھی پاکستان میں ایسے بھی برے حالات نہیں کہ کوئی گھر سے بے گھر شخص ہمارے گھر کے معاملات میں زبان کھولے۔ زلمے خلیل زاد کی تو اپنی یہ حالت ہے کہ ان کے اپنے بھائی بند یعنی افغانستان والے نہیں سنتے۔ یوں وہ ”گھروں جوتیاں اور باہر جتوئی“ بنے پھرتے ہیں۔ اگر یہ حضرت واقعی کوئی توپ مار خان قسم کی چیز ہوتے تو امریکی چھتری تلے رہ کر ہی سہی، اپنے ملک کی کچھ خدمت کر جاتے۔ مگر افسوس یہ صرف اپنی اور اپنے آقائے ولی نعمت یعنی امریکہ بہادر کی ہی خدمت میں مصروف رہے۔ ویسے ہے تو یہ بڑ افسوس کی بات کہ ہماری باہمی نااتفاقی اور انتشار کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاسی کرتا دھرتا ذات سے، پارٹی سے، کرسی سے ہٹ کر ملک و قوم کا سوچیں۔ بہت ہو چکا گزشتہ 75 برسوں سے ہم چور سپاہی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آخر کب تک ہم خود اپنی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرتے رہیں گے۔ طاقتور ممالک ہمیں مشورے دے رہے ہیں اور کمزور ممالک ہماری ہنسی اڑا رہے ہیں۔ رہے دشمن تو وہ کب سے ہمیں نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہم ہیں کہ ابھی تک گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہو رہے۔
٭٭٭٭٭
مصنوعی ذہانت کی بدولت جی میل پر ای میل لکھنا ضروری نہیں ہو گا
لیجئے جناب اب وہ وقت آ گیا جس سے حضرت انسان خوفزدہ تھا۔ کبھی شاعر مشرق نے کہا تھا
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
آج خود انسان اپنے ہاتھوں سے بنائی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل ٹیکنالوجی) کے ہاتھوں زوال آدم خاکی کو قریب آتا دیکھنے لگا ہے۔ ایک طرف سائنسی ماہرین موجد اور محققین خوش ہیں کہ انہوں نے ا س میدان میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے مگر دوسری طرف عمرانی ، سماجی و بشری ماہرین پریشان ہیں کہ اس کی وجہ سے انسانی وجود اوراس کی تخلیقی صلاحیتیں معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ پہلے ہی کمپیوٹر نے انسانوں کو عضو معطل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی، ہر میدان میں کمپیوٹر اور روبوٹس انسان کو پرے دھکیل کر اپنے قدم جما رہے ہیں۔ 100 آدمیوں کا کام ایک روبوٹ یا کمپیوٹر کر رہا ہے جس کی وجہ سے بےروز گاری ایک بڑا انسانی اور سماجی المیہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ روزگار کے وسائل انسانوں سے چھن رہے ہیں۔ مشینی دور چل رہے ہیں۔ حضرت اقبال نے ہی پہلے خبردار کیا تھا۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اب وہی ہو رہا ہے۔روزگار ،ترقی کے وسائل کی کمی کا سب سے زیادہ خطرہ نوع انسانی کو لاحق ہو گا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اب مصنوعی ذہانت کی بدولت جی میل پر ای میل لکھنے کے لیے سوچنے اور ہاتھ چلانے اور بولنے کی ضرورت نہیں ہو گی، صرف موضوع درج کرنے سے ہی تمام مواد تیار ہو کر سامنے آئے گا۔ مگر یہ محبت کے دو میٹھے بولنے کی بجائے سوچنے سے یہ مصنوعی ذہانت کسی کا دل جیت پائے گی۔ ماں بچے کو دودھ پلا پائے گی۔ والدین بچوں کی پرورش کر پائیں گے۔ ایسا ممکن نہیں۔ خود اگر انسانی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو گئیں تو یہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کیا دنیا کو چلا یا کچھ اور نیا بنا سکیں گے۔ نوع انسانی کو بچانے اور چلانے کے لئے بہرحال مصنوعی نہیں حقیقی صلاحیتوں اور جذبات کی ضرورت تو رہے گی۔ ورنہ انسان ختم ہو جائیں گے مشینیں رہ جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
لاہور قلندر کیخلاف میچ ملتان سلطانز نے جیت لیا
شہر کی صورتحال دیکھ کر لگتا تھا کہ پاکستان سپرلیگ کے میچوں کا لاہور چیپٹر اب کلوز کرنا پڑے گا۔ مگر لاہور انتظامیہ اور پولیس مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے تمام تر نفسیاتی ٹینشن کے باوجود تقریباً 24 گھنٹے مسلسل ہنگامہ آرائی کے دوران ڈیوٹی انجام دینے کے باوجود لاہور میں پی ایس ایل کا میچ پروگرام کے مطابق کروایا۔ چونکہ آج کل لاہور کا سیاسی ٹمپریچر ہائی ہے۔ عوام بھی اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پریشانی کا شکار رہے۔ اس منفی صورتحال کا اثر ہمارے قلندروں پر بھی پڑا اور وہ سلطانز کے خلاف کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے اور نہایت آسانی سے ان کے آگے ڈھیر ہو گئے۔ ا±مید تو بہت تھی کہ قلندرز بہرحال کچھ نہ کچھ رنگ ضرور جمائیں گے مگر افسوس وہ تو مٹی کے مادھو ثابت ہوئے اور سلطانی جاہ و جلال زیادہ دیر نہ سہ سکے۔ اس پر لاہوریوں کو ملال تو ضرور ہوا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں، ملتان سلطانز بھی ہمارے اپنے کھلاڑیوں کی ٹیم ہے اور لاہور قلندر بھی۔ اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کھیل میں ایک جیتتا ہے تو دوسرا ہارتا ہے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دونوں جیتیں یا دونوں ہاریں۔ اصل میں یہ میچ تھا سیاسی ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خوف اور میچ بہرصورت امن کے ساتھ منعقد کرانے والی سوچ کے درمیان جس میں پولیس اور لاہور انتظامیہ کامیاب رہی۔ شائقین بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کھیل کے میدان میں کسی سیاسی منفی سوچ کو آگے آنے نہیں دیا اور اطمینان سے کھیل دیکھتے اور انجوائے کرتے رہے۔ یوں ایک دن کی بھرپور ہنگامہ آرائی کے بعد کھیل کے چند گھنٹے اعصاب کو پرسکون کر گئے۔
٭٭٭٭٭
ڈومیسائل کا فرق واضح ہے۔ جو عمران خان نے کیا ہم کرتے تو مائیں بچے تلاش کرتی پھرتیں۔ خالد مقبول صدیقی
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘ ‘ ایک مخصوص جماعت یا گروپ کے ساتھ رعایت دوسری جماعت یا گروپ کے ساتھ سختی اس کی ہر ایک مذمت کرتا ہے لیکن اس کی آڑ میں ایک مخصوص سوچ کو تعصب کو پروان چڑھانا بھی غلط ہے۔ لوکل ہو یا ڈومیسائل جو بھی ہے وہ اس ملک کا باشندہ ہے۔ شہری ہے اسے وہ سب حقوق حاصل ہونا چاہیے جو آئین اور قانون کے تحت اسے حاصل ہیں۔ اگر کوئی اس میں ڈنڈی مارتا ہے تو وہ بڑا بدبخت اور ظالم ہے۔ دونوں کو اپنی اپنی اداﺅں پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جب بھی جس کے ہاتھ اقتدار آیا اس نے تباہی پھیلانے میں حقوق غضب کرنے میں کوئی رتی بھر تامل نہیں کیا۔ بے شک اس وقت ملک میں جو سیاسی ہنگامہ آرائی ہورہی ہے وہ غلط ہے ایسا خود جب ایم کیو ایم نے کیا تب بھی وہ غلط تھا۔ ریاست کی اتھارٹی کو کوئی بھی خواہ پنجابی ہو یا پٹھان، سندھی ہو یا بلوچ یا پھر اردو بولنے والے جو خود کو ابھی تک مہاجر کہلاتے ہیں رعایت کے مستحق نہیں۔ اگر کچھ ادارے کسی کو لاڈلا بنا کر اس کی چاند کے ساتھ کھیلنے کی خواہش کا احترام کرتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ بے شک بہت سے طبقات کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ مائیں پنجاب کی ہوں یا سندھ کی خیبر پی کے کی ہو یا بلوچستان کی یا کراچی کی ان کے بچوں کو انصاف ملنا چاہیے ایک کو تخت اور دوسرے کو تختہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تب ہی ممکن ہیں کہ ہم پہلے مسلمان، انسان اور پھر پاکستانی بن کر سوچیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کریں اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں۔ ورنہ یہ شکوے شکایاتیں یونہی پرانے زخم کریدتی رہیں گی۔ اب ان پر مرہم رکھنے کا وقت ہے تو آگے بڑھیں اور مداوا کریں یہ سب کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭٭٭