نظام المدارس پاکستان …دیر آید درست آید

1947جب پاکستان قائم ہوا تو یہاں 247دینی مدارس قائم تھے، 33سال بعد 1980میںیہ تعداد 2061ہوگئی جبکہ اگلے 40سال میںیعنی 2020تک یہ تعداد 30,000سے زائد تک جاپہنچی ،جبکہ ہزاروں مدارس ابھی تک رجسٹریشن کے عمل سے باہر ہیں، اس تیز رفتار اضافے کی کئی وجوہات تھیں جن میںا فغانستان پر روس کا قبضہ، پاکستان میں امریکی آشیرباد سے جہاد کا غلغلہ، عوامی دینی جذبات کا استعمال، مذہبی جماعتوں کو بیرونی فنڈنگ کی آزادی ، علما و دینی تنظیمات کیلئے بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی،عوام میں عصری تعلیم کے ساتھ دینی علوم کی تحصیل کے شعور میں اضافہ،غریب والدین کے مالی بوجھ میں کمی، دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا و علما کا بیرون ملک جانا ، مدارس کیلئے فنڈز اکٹھا کرنا اور پاکستان میں اپنے مسلک کے مدارس و مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیر میں معاون ہونا،بیرون ملک مقیم عام پاکستانی باشندوں اور ملک میں موجود صنعت کاروں اور امرا میں مدارس و مساجد کی تعمیر کیلئے فنڈز فراہم کرنے میں دلچسپی کا بڑھناوغیرہ۔آج پاکستان میں گورنمنٹ کے زیرِ انتظام 1,80,903تعلیمی ادارے قائم ہیں، 80,057تعلیمی ادارے پرائیویٹ طور پر قائم ہیں، جبکہ دینی مدارس کی تعداد تقریبا ئ30,000تیس ہزار ہے ،اس طرح پاکستان میں کل تعلیمی اداروں کی تعداد 2,90,903تک پہنچ جاتی ہے، گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے تحت قائم کل 2,60,960اداروںمیں سوا پانچ کروڑ طلباء زیر تعلیم ہیں، جبکہ تیس ہزار مدارس میں تیس لاکھ سے زیادہ طلبا دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس طرح گورنمنٹ 63%تعلیمی اداروں کو چلا رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر 27%اداروں کو سنبھالے ہوئے ہے اور تعلیمی اداروں کا 10% مدارس پر مشتمل ہے۔پچھلے کچھ سالوں میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی جذباتیت، انتہا پسندانہ رویوں اور مذہبی اداروں سے فارغ طلبا کی صرف مدارس و مساجد تک محدودیت، عصری تعلیم کی کمی کی وجہ سے ملکی اداروں میں ان کی کھپت کی کوئی صورت نہ بن سکنا، معاشی دائروں میں ان طلبا کا زیادہ تر معاشرے پر انحصار اور اقتصادی سرگرمیوں سے مکمل لا تعلقی جیسے عوامل پر ملک کو چلانے والے ادارے اب کافی فکرمند ہیں اور دینی مدارس کو قومی دھارے کا مکمل حصہ بنانا چاہتے ہیں،ا س سلسلہ میںآج سے ڈیڑھ سال قبل مدارس بورڈز کے نمائندگان اور منتخب اداروں کے علما ء کے ساتھ حکومتی وفدنے خصوصی میٹنگ کی، جس میں مختلف علما ء نے اپنے اداروں کے تعلیمی نظام پر بریفنگ دی۔ منہاج القرآن کی طرف منہاج کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسزکے پرنسپل جناب ڈاکٹر ممتاز الحسن بارہوی نے منہاج القرآن کے تعلیمی نظام اور مجوزہ دینی تعلیمی بورڈ "نظام المدارس پاکستان" کے متوقع تعلیمی نظام کو بھی کھول کر بیان کیا تو وفاقی ادارے کے سربراہ بے حد متاثر ہوئے کہ مدارس کے جس آئیڈیل تعلیمی نظام کے خدوخال ہمارے ذہن میں ہیں منہاج القرآن تو گزشتہ تیس سال سے پہلے ہی اس پر کام کر رہا ہے، چنانچہ فروری 2021میں وفاقی حکومت کی جانب سے دینی مدارس کیلئے پانچ نئے بورڈز کی منظوری دی گئی ہے،نظام المدارس پاکستان(منہاج القران)،مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمت پاکستان(اہل تشیع)،وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ پاکستان (بریلوی) ،اتحاد مدارس العربیہ پاکستان (دیوبند)اوراتحاد المدارس الاسلامیہ پاکستان (اہلحدیث)۔ملک بھر میں موجود دینی مدارس ان نئے بورڈز کے ساتھ الحاق کرسکیں گے اور ان بورڈز کی اسناد کو روایتی تعلیمی بورڈز اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کے مساوی تسلیم کیاجائیگا۔نظام المدارس پاکستان کو منظور ہوئے چند دن ہی گزرے ہیں لیکن اب تک 3000سے زیادہ مدارس کی "نظام المدارس پاکستان" سے الحاق کی درخوستیں آ چکی ہیں جو ڈاکٹر طاہر القادری کے تعلیمی ویژن کااعتراف ہے ،ڈاکٹر صاحب کا
خاصہ ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ جانے کی بجائے مسائل پر ٹھنڈے دل سے غورکرتے ہیں، بھرپور مشاورت کرتے ہیںاور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں،آپ نے ہر مشکل مرحلے پر ملک و ملت کی بہترین راہنمائی کی ،یہ بات الگ ہے کہ حکومتوں نے کبھی آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھایا۔ڈاکٹر صاحب نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اورفرقہ واریت سے لتھڑے ماحول میں اپنی تحریک کی بنیاد علم ،امن اور محبت پر رکھی۔